اسلام نے مجلس میں بیٹھ کر سرگوشی کرنے کو بھی مذموم قرار دیا ہے۔ سورۂ مجادلہ میں ہے: [اِنَّمَا النَّجْوٰى مِنَ الشَّيْطٰنِ لِيَحْزُنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيْسَ بِضَاۗرِّهِمْ شَـيْـــــًٔا اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ][المجادلۃ:10] ترجمہ:’’بلاشبہ سرگوشی کرنا شیطان کا کام ہے تاکہ ان لوگوں کو غمزدہ بنادے جو ایمان لائے ہیں، حالانکہ اللہ کے اذن کے بغیر وہ کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اور ایمان والوں کو تو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے۔‘‘ جب دو آدمی مجلس میں بیٹھ کر سرگوشی کرتے ہیں تو دوسروں کو خیال آتا ہے کہ شاید ہماری ہی نسبت کچھ کہہ رہے ہیں، کم از کم یہ گمان تو ہوتا ہی ہے کہ انہوں نے ہمیں اس قابل نہ سمجھا کہ ہمیں اس راز میں شریک کریں، چونکہ اہل مجلس کو اس سے خفت ہوتی ہے، اس لئے مجلس میں بیٹھ کر سرگوشیاں کرنے کو اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے۔ آج کل کی مہذب اور متمدن قوموں کے افراد گفتگو دھیمی آواز میں کرتے ہیں اور چیخ چیخ کر بات کرنے کو ناشائستگی سمجھتے ہیں۔ یہ خیال نہ کیجئے کہ دھیمی آواز میں بات چیت کرنا نئی تہذیب کی پیداوار ہے۔ قرآن مجید نے اندازِ گفتگو کا سلیقہ بھی ہمیں سکھایا ہے: [وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ ۧ ] [لقمان19] اور اپنی آواز پست کرو ۔ بلاشبہ سب آوازوں سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔ مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیٹھنے کے آداب بھی قرآن مجید نے سکھائے۔ [يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ] [الحجرات:2] ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی اس کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو ۔‘‘ اور یہ بھی فرمایا: [اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى] [الحجرات:3] ترجمہ: ’’جو لوگ اللہ کے رسول کے حضور اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |