میاں بیوی کی رنجش میں میکے والوں کا کردار سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، وہاںسیدنا علی رضی اللہ عنہ موجود نہیں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی سے پوچھا تمہارے عم زاد کہاں ہیں؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : "كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، فَغَاضَبَنِي، فَخَرَجَ، فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي "[1] ’’میرے اور ان کے درمیان کوئی بات ہوگئی تھی تو وہ گھر سے غصے میں چلے گئے اور میرے پاس قیلولہ بھی نہیں کیا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص سے کہا ان کو دیکھو! وہ کہاں ہیں؟ اس نے آکر بتلایا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے ، دیکھا کہ وہ واقعی وہاں سوئے ہوئے ہیں ، ان کی چادر(نیند کی وجہ سے) ان کے پہلوسے گری ہوئی ہے اور ان کےجسم کو مٹی لگ گئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "قُمْ أَبَا تُرَابٍ، قُمْ أَبَا تُرَاب" [2] ’’ابوتراب اٹھو! ابوتراب اٹھو!۔‘‘ اس وقت سے ان کی یہ کنیت مشہور ہوگئی اور چونکہ اس کنیت سے آپ کو خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ، اس لیے یہ کنیت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بہت پسندتھی۔ ابو تراب کے معنی ہیں مٹی والے ۔ چونکہ جناب علی رضی اللہ عنہ فرشِ زمین پر لیٹے ہوئے تھے اور چادر جسم سے اتر جانے کی وجہ سے جسم پر مٹی لگ گئی تھی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ابوتراب سے خطاب فرمایا۔ اس واقعے میں یہ نہایت اہم سبق پنہاں ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اگر کوئی رنجش ہوجائے اور لڑکی کے گھر والوں کو اس کا علم ہوجائے تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ بچی کو فوراً اپنے گھر لے آؤ، یا بچی از |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |