Maktaba Wahhabi

355 - 453
مادی، مشینی اور اپنا مخصوص مزاج و ذہن رکھنے والی تہذیب کو جوں کا توں قبول کر لے اور اس کے سارے بنیادی عقائد ، فکری رجحانات ، مادی افکار و خیالات اور سیاسی واقت صادی نظام پر ایمان لے آئے پھر اپنے ملک میں اس کی مکمل نقل کرنا چاہے اور اس کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہو ۔ عالم اسلام میں بہت سے لوگوں نے متعدد ممالک میں اس دوسرے موقف کی تائید کی اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا اس کی طرف لوگوں کو ترغیب دی لیکن میں صرف تین ممالک میں سے تین بندوں کا ذکر مناسب سمجھوں گا جو کہ درجہ ذیل ہیں : 1)مصطفیٰ کمال اتاترک ترکی سے 2)سر سید احمد خان ہند یعنی بر صغیر سے 3)طہٰ حسین مصر سے مصطفی کمال اتاترک کا تجدد اور مغربیت کمال اتاترک وہ شخصیت تھی جس نے خلافت کو ایک سیکولر (نا مذہبی) اسٹیٹ میں تبدیل کردیا جس میں اسلام کو سرکاری مذہب کی حیثیت نہیں دی۔ دین و سیاست میں تفریق کی اور یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے ہر شخص اپنے لئے کسی مذہب کا انتخاب کر سکتا ہے بغیر اس کےکہ سیاست میں بھی اس کو دخل ہو۔ خلافت کے ادارہ کو ختم کردیا گیا، شرعی اداروں اور محکموں اور اسلامی قانون شریعت کو ملک سے بے دخل کر کے سویزرلینڈ کا قانون دیوانی، اٹلی کا قانون فوجداری اور جرمنی کا قانون بین الاقوامی تجارت نافذ کیا گیا اور پرسنل لاء کو یورپ کے قانون دیوانی کے مطابق و ماتحت کردیا۔ مخلوط تعلیم کا نفاذ کیا گیا، عربی حروف کی جگہ لاطینی حروف جاری ہوئے۔ عربی زبان میں آذان ممنوع قرار پائی۔ قوم کا لباس تبدیل ہوگیا غرض یہ کہ اتاترک نے ترکی قوم اور حکومت کی دینی اساس کو توڑ پھوڑ کے ختم کیا اور قوم کا نقطہ نظر بدل دیا۔ ریاست کو نامذہبی بنانے کا بل پیش کرتے ہوئے کمال نے پارلیمنٹ سے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: ’’عثمانی سلطنت ، اسلام کے اصول پر قائم ہوئی تھی اسلام اپنی ساخت اور اپنے استوارات کے لحاظ سے عرب ہے۔ وہ پیدائش سے لیکر موت تک اپنے پیرؤں کی زندگی تشکیل کرتا ہے اور ان کو
Flag Counter