Maktaba Wahhabi

261 - 453
اگر خودغریب ہے تو اس کے مال کو خرچ کرسکتا ہے ،لیکن فضول خرچی اور اسراف نہ ہو،اور نہ ہی مال ضائع کیا جائے اور نہ ہی یتیم کے مال سے اپنی جمع پونجی بنائی جائے۔[1] یتیم کا مال کھانا کبیرہ گناہ ہے۔ [2] بہرحال عام معاملات میں بھی اس کے ساتھ حسن سلوک اور وراثت کے حوالے سے بھی وہ جس حصے کا وارث ہے اسے دیا جائے گا نیز اس کی کفالت کی بھی ترغیب دلائی گئی اور بڑے ہوجانے پر اس کا مال اس کے حوالے کرنے کا بھی حکم دیا گیا۔ حمل (Unborn Child) اسلامی نظام وراثت میں انتہا درجے کے عدل کی ایک عمدہ مثال یہ بھی ہے کہ اس نظام میں ماں کے پیٹ میں موجود حمل (اگر وہ پیدائش کے بعد شرعی طور پر وارث بنتا ہو) کے لئے بھی حصہ رکھ لیا جائے گااور اسے کالعدم نہیں سمجھا جاسکتا ،کیونکہ یہ اس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم ہوگا۔ البتہ اس کی تقسیم کے حوالے سے مشکل یہ ہے کہ حمل کے بارے میں بہت سی باتوں کا علم نہیں ہوتا مثلاً وہ زندہ بھی ہوگا یا نہیں ،مذکر ہوگا یا مؤنث، پھر وہ ایک ہے یا ایک سے زائد ہیں ۔وغیرہ بہرحال اس کا حل یہ ہے کہ اولاً کوشش یہی ہونی چاہئے کہ تمام ورثاء وضع حمل کا انتظار کریں،ورنہ حمل کے لئے اکثر حصہ روک کر باقی ورثاء میں تقسیم کردیا جائے گایعنی اگر بچہ کی صورت میں حصہ زیادہ بنتا ہے تو وہ روک لیں گے اور اگر بچی کی صورت میں زیادہ بنتا ہے تو وہ روک لیں گےاور حمل کے لئے جس حیثیت (بچہ /بچی)سےحصہ روکا گیا ہے اگر وضع حمل کے بعد وہ وہی (بچہ یا بچی )ہے ،پھر تو ٹھیک۔ ورنہ اس کا حصہ کم کرکے وہ مال ورثاء میں تقسیم کردیا جائے گا۔مزید تفصیل اس حوالے سے کتب میراث میں دیکھی جاسکتی ہے،ہم یہاں جس حوالے سے بات کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ حمل کے
Flag Counter