موجودگی میں اجتہاد جائز نہیں ۔ ( وان ما عارض النص فاسد الاعتبار ) [1]جو بات بھی نصِ شرعی کے خلاف ہوگی وہ ناقابلِ اعتبار ہوگی ۔ مگر صد افسوس ہم اگر اس وقت مسلم معاشرہ کا جائزہ لیں تو اس میں شرعی ثوابت کو بھی طعن وتنقید اور رائے کی نذر کردیا جاتاہے ۔ جس میں شرعی حدود ، ایک سے زائد شادیاں ، خواتین کی وراثت کا مسئلہ ، خواتین کی آزادی ، پردے کے مسائل وغیرہ ، شرعی نصوص سے ثابت شدہ ان تمام معاملات کو زیر بحث لاکر اسے مختلف طریقوں سے تنقیدکا نشانہ بنایا جاتا ہے جو قطعاً غیر شرعی عمل ہے اور انسان کو کفر میں بھی مبتلا کرسکتاہے !۔ دوسرا اصول : صاحب رائے کون ہونا چاہئے ؟ رائے کے اظہار کرنے والے کیلئے اسلام نے کڑی شرط لگائی ہے کہ وہ صاحب علم ہونا چاہئے اگر کوئی علم سے ہٹ کر بات کرتا ہے اس کی کوئی وقعت وحیثیت نہیں ۔فرمان باری تعالیٰ ہے {وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۰ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا} [الإسراء: 36] ’’اور (دیکھو،) جس بات کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ لگو ۔ (یاد رکھو،) کان، آنکھ اور دل ان سب سے (قیامت کے دن) باز پرس ہونی ہے۔‘‘ {وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَي اللہِ الْكَذِبَ۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ} [النحل: 116] ’’اور نہ کہو جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام، کہ اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ باندھنے لگو ۔ (یاد رکھو،) جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کبھی فلاح پانے والے نہیں۔‘‘ اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ جو شخص جس فن کا ماہر ہے وہ اسی فن میں بات کرے، اپنے فن |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |