Maktaba Wahhabi

315 - 453
سے ہٹ کر اگر اس سے رائے لی جائے تو اسے چاہئے کہ اس بات کو اس فن کے ماہرین کے سپرد کردے ۔جیسے طب کے مسئلہ میں کسی انجینئر کی بات کی کوئی حیثیت نہیں تو اسی طرح شرعی مسئلہ میں کسی غیر عالم اور کسی دنیاوی فن کے ماہر کی رائے کا کوئی وزن نہیں ہے ۔ اس لئے فقہاء رحمہم اللہ نے یہ مسئلہ بیا ن کیا ہے کہ ’’يشرع الحجر على المتطبب الجاهل‘‘[1]اطائی معالج پر پابندی لگانا ضروری ہے ۔ اگر دنیاوی شعبہ جات کے لوگ ایک دوسرے کے شعبہ کا احترام کرتے ہیں تو پھر شرعی معاملات ومسائل میں اس احترام کو کیوں درخوراعتنا نہیں سمجھا جاتا؟ کیا دین اتنا ہی لا وارث ہے کہ جسے جو من میں آئے وہ کہہ دے ۔ اللہ کے بندو اللہ کا خوف کرو ۔ جو شعبہ سب سے حساس ہے اس میں غلط رائے زنی انسان کو کفر تک لے جاسکتی ہے ہم نے اسے اتنا ہی ارزاں بناکر ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کیلئے میدان کھول دیاہے کہ وہ شرعی مسائل میں ببانگ دہل اپنی جہالت جھاڑتا پھرے ۔ میڈیا کی شتر بے مہاری کے باعث ہمارے چینلوں پر مذہبی پروگرام چند مسخروں ، بھانڈوں ، مداریوں ، گویوں ، اداکاروں اور کاسہ برداروں کے حوالے کردئے گئے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر ضیاء الدین ’’ مذہب کے نام پر روایت اور دین کے نام پر خرافات بانٹنے کا سلسلہ ہر جگہ جاری ہے ۔ نہ ایمان نہ عقیدہ ، نہ کعبہ ، نہ امام، نہ مقتدی ، نہ رمضان ، نہ امان ۔ سارے فُقرے ، بھوکے ننگے ، چھٹل کارتوس ، بڑے عمامے ، کھوکھلے سر ، چینلوں پر آنے کے شائق ، رونمائی کی ہوس کے مارے ہوئے منافق ، ستر برس میں سترہ برس کے دکھائی دینے کے شوقین ، حلق سے قاف نکالنے اور حلق تک افطاری ٹھونسنے والے شکم پرور ، دین کو مداری کی مرضی سے موڑنے توڑنے اور جوڑنے والے کاریگر ، پیسے لے کر فتوے دینے والے چھابڑی بردار ، سب چینلوں پر جمع ہیں ، جبکہ اصل علماء مساجد اور مدارس میں عبادت اور تدریس میں مصروف ہیں ۔[2] یہ مختصر سا نقشہ ہے جس میں واضح کردیا گیاہے کہ اس وقت میڈیا پر دینی معاملات میں رائے دینے والے کن صفات ومعیارات کے حامل ہیں ۔الّا ما شاء اللہ اسلام نے رائے کے حوالے سے علم کے ساتھ ایک ضابطہ یہ بھی متعین کیا ہے کہ اظہار رائے میں ارادہ خیر وحق ہونا چاہئے ۔ نہ کہ محض اظہار رائے اور خود نمائی کا جذبہ ۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ’’ جو اللہ
Flag Counter