Maktaba Wahhabi

410 - 453
نوجوانوں کے ہاتھ ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ امت کے فساد اور خرابی کاسبب کیسے بنیں گے ؟؟اپنی کم فہمی اور بے شعوری کی وجہ سے۔ اس کے برعکس جب ایک جوان میں شعور پیدا ہوتا ہے تو وہ پورے سماج کی اصلاح کے لئے کمربستہ ہوجاتا ہے، اس کی مثال سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہیں کہ جنہوں نے جب بت توڑے تو قوم جانتی تھی کہ ایک جوان ہی کا کام ہوسکتا ہے۔اور قوم کی مراد ابراہیم علیہ السلام تھے۔( الانبیاء:۶۰) یعنی ایسا جرأتمندانہ فعل ایک جوان نے ہی کیا ،اور جب جوان یہ کام نہ کرسکے تو کم ازکم اس کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ وہ خاموش تماشائی بن جائے،بلکہ وہ کم از کم ایسے علاقے میں رہنا مناسب نہیں سمجھتا۔ اس کی بڑی مثال اصحاب کہف ہیں،جوکہ نوجوان لڑکے ہی تھے، جب انہیں توحید کا فہم اور شعور آیا،پھر ان کی غیرت نے شرک و کفر کو قبول نہیں کیا، قوم ان کے درپے ہوئی اور ان کے بس میں بھی کچھ نہیں تھا،بالآخر وہ اس علاقے کو چھوڑ کر ایک غار میں چھپ جاتے ہیں ،اس پورے واقعہ کا نقشہ قرآن مجید میں کھینچا گیا۔(دیکھئے: سورۃ الکہف: ۹ تا ۲۶) بہرحال یہ نتیجہ ہے نوجوانوں کے صحیح شعور اور فہم و بصیرت کااور بے شعوری اور کم فہمی کا۔ آج کا نوجوان فتنوں کے نرغے میں جوانی کی عمر آزمائشوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔جہاں اس عمر میںنوجوان کے کاندھوں پر مختلف قسم کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں ،ساتھ ہی اسے مختلف قسم کے فتنوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس عمر میں دنیاوی خواہشات اور حب الشہوات دونوں ہی عروج پرہوتی ہیںاور ساتھ ہی جوانی ایک غفلت کی عمر بھی ہے،ایسے میں جوان جن برے اعمال کا مرتکب ہوجاتا ہے بالخصوص دور حاضر میں نوجوان جس طرح سےغلط راہوں کا راہی بن چکا ہے اور اس میں دینی اور اخلاقی اعتبار سے جن بیماریوں کا شکار ہے ، ذیل میں ان کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ مال سے متعلق برے خصائل چونکہ جوان اپنے والدین اوراولاد کی کفالت اور بیوی کے نان و نفقہ اور اقارب کے ساتھ صلہ رحمی
Flag Counter