Maktaba Wahhabi

130 - 453
ہے۔البتہ بے آباد گھروں میں داخل ہونے سے تم پر کوئی گناہ نہیں جہاں تمہارے فائدے کی کوئی چیز ہو۔ اور اللہ خوب جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اہل ایما ن کوگھر میں داخل ہوتے وقت عالی اخلاق و آداب اپنانے کا حکم دیا ہے جس میں اس گھر کی حرمت اور گھر والے کی عزت وعفت کا تحفظ بھی ہے اورگھر والوں کی طرف سے آنے والے کے لئے احترام و اکرام کے پہلو کو بھی اجاگر کیا ہے اور اس طریقہ کے اختیار کرنے میں خیر کثیر کی نوید بھی سنائی ہے۔ شریعت میں اجازت کے حوالے سے لفظ’’استئذان ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ذیل میں اس لفظ کی وضاحت پیش ہے ۔ ’’استئذان‘‘ کیا ہے ؟ ’’استئذان‘‘ لفظ ’’اذن‘‘سے نکلا ہے جس کے لغت عرب میں مختلف معنی ہیں جن میں’’جاننا اور معلوم کرانا ‘‘[1]’’اس کو معاملہ سمجھادیا یا معلوم کرادیا ‘‘ کے معنی میں مستعمل ہے ۔ ابن عربی کہتے ہیں استئذان کو استئناس(مانوسیت ) سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ معنی میں استعلام (معلوم کرنے )کی طرح ہے۔[2] قرآن کریم میں لفط اذن اپنے محل و موقع کے اعتبار سے معنی و مفہوم دیتا کہیں اس کا معنی ’’اجازت لینا‘‘ اور کہیں ’’حکم‘‘ کے معنی میں آتا ہے۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ استئذان کی تعریف میں لکھتے ہیں : "الاستئذان: طلب الإذن بالدخول، لمحل لا يملكه المستأذن "[3] ترجمہ ’’کسی ایسی جگہ داخل ہونے کے لئے اجاز ت طلب کرنا جہاں انسان بغیر اجازت داخل ہونے کا مجاز نہ ہو‘‘
Flag Counter