Maktaba Wahhabi

125 - 453
سلام ،مصافحہ اورمعانقہ سے متعلق پہلے گفتگو گذر چکی ہے یاد رکھئے کہ سلام، مصافحہ اور معانقہ اور ان تمام آداب کا مقصد دوسروں کا جی خوش کرنا اور انہیں راحت پہنچانا ہے۔ جب علت ساقط ہوجائے تو معلول بھی ساقط ہوجاتا ہے۔ اگر مصافحہ اور معانقہ سے کسی وقت دوسرے کو اذیت ہو تو شائستگی کا تقاضا یہی ہے کہ آپ ایسے وقت میں مصافحہ اور معانقہ سے اجتناب کیجئے مثلاً: اگر کسی آدمی کا ہاتھ زخمی ہے یا کوئی عذر لاحق ہے تو اسے مصافحہ کی زحمت نہ دیجئے۔ اسی طرح اگر کوئی جلدی میں کہیں جارہا ہو، اور تیز تیز قدم اٹھا رہاہو تو اس سے آپ کو اندازہ لگانا چاہئے کہ یہ صاحب جلدی میں ہیں ایسی صورت میں اسے مصافحہ کے لئے ٹھہرانا اذیت کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا اسلامی نقطہ نظر سے ناقابلِ تحسین ہے۔ کسی مجلس میں زیادہ افراد ہوں اور کسی مسئلے پر غور کر رہے ہوں ، آپ دیر سے آئے ہیں تو تہذیب کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ محض سلام پر اکتفا کیجئے۔ ہر ایک سے جدا جدا مصافحہ کرنا، سلسلہ گفتگو کو کاٹنا، اور اس میں خلل ڈالنا اہل مجلس کے لئے گرانی اور تکدّر کا باعث ہوتا ہے اور آپ کو اذیت جداہوگی۔ اسی طرح بعض لوگوں کو ہر وقت ہر جگہ معانقہ کی عادت ہوتی ہے۔ بیمار، ضعیف، ناتواں اور نازک مزاج لوگوں کو اس سے اذیت ہوتی ہے۔ معانقہ اسی وقت تک درست ہے جب تک وہ راحت اور آرام کا باعث ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمادیا ’’المومن الذی یخالط الناس ویصبر علی آذاھم خیر من الذی لا یخالط الناس ولا یصبر علیٰ آذاھم‘‘ [1] ترجمہ: ’’وہ مومن جو لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے اور ان کی ایذا پر صبر اور تحمل سے کام لیتا ہے اس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں سے میل ملاپ نہیں رکھتا اور ان کی ایذاء پر صبر و تحمل سے کام نہیں لیتاہے۔‘‘
Flag Counter