Maktaba Wahhabi

356 - 453
اپنے مخصوص سانچہ میں ڈھالتا ہے ۔ وہ ان کی امنگوںکا گلہ گھونٹ دیتا ہے اور ان کی برات و اقدام پسندی میں روڑے اٹکاتا ہے۔ ریاست کو اسلام کے مسلسل باقی رہنے سے خطرہ لاحق رہے گا۔‘‘[1] ترکی قوم کو مغربی ثقافت کے بارے میں ترغیت دیتے ہوئے کہتاہے: ’’ہم کو ایک مہذب و شائستہ قوم کا سا لباس پہننا چاہئےہم کو دنیا کو دکھانا چاہئےکہ ہم ایک بڑی قوم ہیں، ہم کو دوسری قوم کے ناواقف لوگوں کو اپنے پرانے فیشن کے لباس پر ہنسنے کا موقع نہیں دینا چاہئے ہم کو زمانہ کے ساتھ چلنا چاہیئے۔‘‘[2] یہ تھے مصطفی کمال جس نے 1924م سے 1938 م تک ترکی پر حکومت کی اور اس عرصہ میں اس نے ایک اسلامی معاشرے کو بالکل مغربی معاشرہ بنالیا اور اب تک ترکی اسی منہج پر چل رہا ہے۔ سر سید احمد خان کی مغربیت اور تجددپسندی سر سید احمد خان مغربی تہذیب اور اس کی مادی بنیادوں کی تقلید اور جدید علوم کو اس کے عیوب و نقائص کے ساتھبغیر کسی تنقید و ترمیم کے اختیار کر لینے کے داعی تھے کیونکہ سر سید احمد خان نے آخری مغل حکومت کا زوال اور 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا انہوں نے اس ہزیمت ، اہل ہند کی دل شکستی ، ان کی عظیم جماعت کے مقابلہ میں مٹھی بھر غیر ملکیوں کی فتح کا مشاہدہ کیا۔وہ قوم جو کل اس ملک کی حاکم تھی اس کی ذلت و پستی کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا نیز برطانیہ کی حکومت اور ان کی ساحرانہ تہذیب کے مناظر بھی دیکھے مزید یہ کہ سر سید نے متوسط درجہ کی تعلیم پائی تھی اور دینی علوم اور کتاب و سنت پر ان کی نظر گہری اوار وسیع نہ تھی ۔ سرسید نے فرانس اور برطانیہ کو اس وقت دیکھا جس وقت وہ اپنے تمدن و ترقی کے شباب پر تھے۔ جدید علوم اور جدید صنعت اپنے عروج پر تھی ، اس وقت مغربی معاشرہ اور سوسائٹی میں زوال اور انحطاط کے وہ آثار نمودار نہیں ہوئے تھے جو جنگ عظیم اول کے بعد اہل نظر کو صاف نظر آنے لگے تھے،مغربی
Flag Counter