بچہ ہوگا جو اپنے انداز میں بات کرتا ہے ۔ منٹوں کے بعد بات سمجھ پاتا ہے اور کبھی وہ بھی نہیں سمجھ پاتا کچھ خبیث طبیعت کے لوگ تو بچوں سے راز کی باتیں بھی معلوم کرنے لگتے ہیں ۔ ظاہر ہے اِس کا واحد علاج یہ ہے کہ بالکل چھوٹے بچوں کو فون اٹھانے نہ دیا جائے ۔ فون کی آواز آن کرنا یا آواز محفوظ (ریکارڈ )کرنا منع ہے: گفتگو کرنے والے کی بات کو ریکارڈ کرنا یاموبائل کی آواز سب کے سامنے کھول کردینا تاکہ اسے دوسرے بھی سنیں‘ غلط ہے بلکہ ایک طرح کی خیانت ہے ۔ کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب انہیں کوئی فون کرتاہے تو اس کی آواز کو ریکارڈ کرنے لگتے ہیں یا آواز کھول دیتے ہیں تاکہ حاضرین اس کی گفتگو سنیں۔ ایسا کرنا سراسر غلط ہے ۔ کوئی دانا ایسا نہیں کرسکتا ۔ ہاں اگر بات کرنے والے سے اجازت لے لی جائے ، اور گفتگو سب کے لیے مفید ہو تو ایسی صورت میں آواز اونچی کرنےمیں کوئی حرج نہیں ۔ علامہ ڈاکٹر بکر ابوزید رحمہ اللہ اپنی کتا ب ’’أدب الھاتف ‘‘ میں لکھتے ہیں : "لایجوز لمسلم یرعی الأمانۃ ویبغض الخیانۃ أن یسجل کلام المتکلم دون اذنہ وعلمہ مھما یکن نوع الکلام دینیا أو دنیویا" ‘‘ایسامسلمان جوامانت کی رعایت کرتا ہو اور خیانت کو ناپسند کرتا ہو‘ اس کے لیے قطعاً جائز نہیں کہ گفتگو کرنے والے کی بات کو اس کی اجازت اوراسکے علم کے بغیر ریکارڈ کرلے، چاہے گفتگو جس نوعیت کی ہو‘ دنیوی ہو یا دینی جیسے فتوی اور علمی مباحث وغیرہ ۔ رنگ ٹونز کے طور پر عادی گھنٹی کا استعمال کریں : موبائل فون میں عادی ٹونز کا استعمال ہوناچاہیے ،بالعموم لوگ موسیقی یا نغمے والی ٹونز رکھنا پسند کرتے ہیں حالانکہ سب سے پہلے تو یہ حرام ہے ،پھردینی مزاج رکھنے والے اور سنجیدہ طبیعت کے لوگ اسے اچھا نہیں سمجھتے ،ایسے لوگوں کواس سے اذیت اور تکلیف ہوتی ہے ، بالخصوص جب مساجد یا لوگوں کے اجتماعات میں ایسے نغمے سنے جائیں تو اس کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے ۔ |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |