Maktaba Wahhabi

107 - 453
چھوٹے بچوں کے ساتھ اپنانا ضروری ہے، سب کو اپنے ہی بچوں کی طرح سمجھیں اور دیکھیں اور ان کی آپس کی باہمی معصومانہ لڑائیوں کو نظر انداز کریں اور ان کی لڑائی کو بڑوں کی لڑائی میں تبدیل نہ کریں اور نہ ہونے دیں ۔ اس رویے کو اپنانے میں بڑوں کے ادب واحترام اور خوش اخلاقی وخوش زبانی کا بھی بڑا دخل ہے ، کوئی بھی عورت ان کے تقاضوں سے بھی کبھی غفلت نہ برتے بلکہ ان خوبیوں کو اپنی سیرت وکردار کا حصہ اور زندگی کا معمول بنائے ، یہ اللہ اور رسول کا بھی حکم ہے اور حکمت ودانش کا مظہر بھی۔ جس کے اختیار کرنے میں آخرت کی بھی بھلائی اور دنیوی زندگی میں خیر اور فلاح کا ذریعہ بھی ۔ اللہ کی نظر میں بھی پسندیدگی کا باعث ہے اور خاندان میں بھی عزت اور نیک نامی کا ذریعہ ۔ "وَفَّقَ اللَّہُ جَمِیعَ المُسلِمِینَ وَالمُسلِمَاتِ لِمَا یُحِبُّ وَیَرضَی" اللہ تعالیٰ تمام مسلمان مرد و خواتین کو ہر اس عمل کی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کی پسند اور رضا کا سبب ہو ۔ پنجم : اگر خاوند کے وسائل الگ گھر لے کر الگ رہنے کے متحمل نہیں ہیں تو عورت خاوند کو کبھی بھی اس پر مجبور نہ کرے بلکہ مذکورہ ہدایات کی روشنی میں مشترکہ طور پر ہی گزارا کرے تاآنکہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمادے۔ ہاں اگر خاوند کے وسائل اس امر کی اجازت دیں کہ وہ الگ مکان لے سکتاہے (کرائے پر یا خریدکر) اور وہاں وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزارا کرسکتاہے اور علیحدہ رہ کر والدین کی بھی حسب ضرورت اور حسب استطاعت خدمت کر سکتاہے ، تو شادی کے بعد علیحدگی میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ اس صورت میں علیحدگی بہتر ہے ایسی صورت حال میں والدین کو بھی بیٹے کو بہ رضا ورغبت علیحدہ رہنے کی اجازت دے دینی چاہیے۔ ششم: بڑوں کے ادب واحترام کی بابت جو عرض کیا گیا ہے ، ان میں ساس سسر(دولہا کے ماں باپ) سرفہرست ہیں۔سسرال میں آنے کے بعد عورت(دلہن) کے لیے یہ بھی اس کے لیے ماں باپ کے
Flag Counter