Maktaba Wahhabi

305 - 453
ابلاغ ہے جو اشتراکیت کے عروج کے دنوں میں کافی موضوعِ بحث رہا۔ کمیونسٹ نظریہٴ ابلاغ میں اظہاررائے اور فکر و نظر کی آزادی کو حکومت کی پالیسیوں کی تشہیر تک محدود کردیا گیا تھا۔ ذرائع ابلاغ اس بات کے پابند تھے کہ وہ عوام میں جاکر انھیں حکومت اور پارٹی کی پالیسیوں سے آگاہ کرائیں اور مملکت کے بنیادی نظریے یعنی کمیونزم کی تشہیر کریں اور اس نظریے کو اپنانے کے لیے عوام کی ذہن سازی کریں۔ مطلب یہ کہ کمیونسٹ نظریہٴ ابلاغ بھی کسی نہ کسی شکل میں مقتدرانہ نظریہٴ ابلاع کا ہی چربہ تھا۔ اس میں بھی عوام مجبور و مقہور اور مہر بہ لب تھے۔ مغربی فکر وسوچ پر بھی یہی اصولپندرہویں سولہویں صدی تک حاوی رہا اور تمام ذرائع ابلاغ ودیگر حکومتی تحویل میں رہے ۔ افلاطوں نے اسی نظریے کو پسند کیا اور کہا :”اگر ریاست میں اختیارات کو بہت سے افراد میں تقسیم کردیا جائے توریاست کا زوال شروع ہوجاتا ہے،اس لیے حاکم کو چاہیے کہ ریاست کے انتظام میں عوام کے عمل دخل کو محدود کردے۔“[1] عالمِ حاضر اور مغرب کی فکری آزادی : فرعونی آزادی ٔاظہار رائے کے مقابلے میں یورپ میں اس کے بالکل برعکس نظریے نے جنم لیا اور وہ تھا مادر پدر آزادی کا نظریہ ۔ جہاں فکر ونظر کی اور کردار وعمل کی مکمل آزادی دے دی گئی ۔ اظہار کی آزادی کی آڑ میں ذرائع ابلاغ کے سر کش گھوڑے کو ایسا بے لگام چھوڑ دیا گیا جس نے ایمانیات کے ساتھ انسانوں کی اخلاقیات کو بھی پیروں تلے روند کر دکھ دیا ۔ یہ نظریہ آزادی پسندانہ نظریہ ابلاغ کے طور پر تاریخ میں جانا گیا،چونکہ اس عہد میں سائنسی دریافتوں نے انسان کو عقلیت کا سبق سکھایا تھا اوروہ ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد ہی اس کو اپنی زندگی میں رو بہ عمل لاتاتھا،اس لیے انھوں نے ما قبل کے نظام حکومت میں عائدقید و بند سے آزادی کے لیے ایک ایسے نظریے کا سہارا لیا، جس میں فرد کو ساری آزادی میسر تھی۔آزادی پسندانہ نظریہ ابلاغ کو امریکی حکمرانوں نے خوب شہہ دی اور سب سے پہلے امریکی دستور میں یہ ترمیم کی گئی کہ کانگریس کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی، جس سے تحریرو تقریراور ذرائع ابلاغ کی آزادی پر حرف آتا ہو۔ کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے حکمراں طبقوں نے اس نظریہ کو اپنے ملکوں میں خوب پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ مقتدرانہ نظریہ ابلاع میں تمام
Flag Counter