اختیارات ریاست اور حکمراں طبقے کو حاصل تھے، اس کے بر عکس آزادی پسندانہ نظریہ ابلاغ میں ہر فرد کو یہ آزادی دی گئی تھی کہ وہ جو چاہے، جس طرح چاہے اور جس کے خلاف چاہے تقریر اور تحریر کے سہارے اس کا اظہار کر سکتا ہے۔مملکت یا حاکم وقت کو اس کے دست وبازو کو پکڑنے اوراس کو مہربہ لب کرنے کا حق نہ ہوگا۔[1] یہ جرأت اس انتہا کو پہنچ گئی کہ مقدس مقامات ، شخصیات ، انبیاء کرام بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکے ۔ انہوں نے عظیم الشان ہستی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جسارت کی ، جبکہ اس سے قبل دیگر انبیاء کرام جناب یوسف علیہ السلام ، جناب عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ کی شخصیات کے فلمی کردار پیش کئے ۔ یہ سب کچھ اسی آزادئ اظہار رائے کے فلسفے کو بنیاد بناکر ہوتارہا ، وا عجبا ! آزادی اظہار رائے کا یہ ناسور جب مغرب کے رگ وریشہ میں رچ بس گیا تو یہ نظریہ مغرب نے محض اپنی حد تک محدود نہیں رکھا بلکہ دیگر اقوامِ عالم کو بھی اس کے ذریعے مسخر کیا ۔ اور آج آپ اندازہ کرسکتے ہیں مسلمانوں ودیگر اقوام عالم کی مغرب کے سامنے بے بسی کی وجہ یہ شتر بے مہارانہ آزادی ہے ۔ مغرب نے ایسے شاطرانہ طریقے سے اممِ عالم کو فکر ونظر اور اظہار رائے میں آزاد کیا کہ اس وقت دنیا میں بالعموم اور عالم اسلام میں بالخصوص جتنی بھی سورشیں برپا ہیں ، جتنی بھی افراتفری اور بے یقینی کی کیفیت ہے سب اس آزادی اظہار رائے اور میڈیا کی شتر بے مہار آزادی کے باعث ہے ۔ میخانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں لاتے ہیں سرور اوّل ، دیتے ہیں شراب آخر عالم حاضر میں اس بے لگام آزادی کے باوجود چونکہ انسانی فطرت سے تو ہر مسلم وکافر کا پالا پڑتا ہے، اس سے خلاصی ممکن نہیں لہٰذا ہر قوم وملک کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ آزادئ اظہار رائے پر ( چاہے وہ جزوی ہو ) روک لگائی جائے ورنہ کوئی قوم اس کے بغیرنہ ترقی کرسکتی ہے نہ فساد کو کنٹرول کرسکتی ہے۔ اسی فطری ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے جدید تہذیب نے بھی کچھ ایسے قوانین واصول وضع کئے ہیں جن کی رو سے ان کے ہاں چند مسائل پر گفت وشنید کرنا ، کسی قسم کی رائے کا اظہار کرنا شجرہ ممنوعہ قرار پاتا ہے ۔ |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |