Maktaba Wahhabi

149 - 326
’’وہ جماعت ہے۔ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔‘‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرقہ کی پہچان کی یہ خوبی بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے عقیدے میں، قول وعمل میں اور اخلاق وکردار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر ہوگا وہ ہر عمل اور ہر پرہیز میں کتاب وسنت کے طریقہ پر چلے گا اور مسلمان جماعت یعنی صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر پابند ہوگا۔ جن کا مقتداً محض اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، وہ رسول جن کی یہ صفت ہے کہ: ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی٭ اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی ﴾ (النجم۵۳؍۳۔۴) ’’وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے، وہ تو محض وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔‘‘ لہٰذا ہر شخص جو اللہ کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اور عملی سنت اور اجماع امت کی پیروی کرتاہے، غلط خیالات‘ گمراہ کن خواہشات اور غلط سلط تاویلات سے متاثر نہیں ہوتا، ایسی تلاوت جن کی اس عربی زبان میں گنجائش ہی نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہے اور جس میں قرآن کریم نازل ہوا ہے اور وہ تاویلات شریعت اسلامیہ کے اصولوں کے بھی خلاف ہیں، جو شخص بھی اس طریق کار عمل کرتا ہے وہ فرقہ ناجیہ اہل سنت والجماعت میں شامل ہے۔ (۳) لیکن جو شخص خواہش نفس کو اپنا معبود بنا بیٹھے اور قرآن مجید اور صحیح احادیث کے مقابلے میں اپنے امام یا سربراہ کی حمایت میں اپنے امام یا سربراہ کی رائے کو ترجیح دے اور کتاب وسنت کی نصوص کی اس انداز کی تاویل کرے جو عربی زبان کے قواعد اور شریعت اسلامیہ کے اصولوں کے خلاف ہو، وہ ’’جماعت‘‘ سے خارج ہوجاتاہے اور ان بہتر فرقوں میں شامل ہوجاتاہے۔ جس کے متعلق رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی ہے کہ وہ سب جہنم میں جائیں گے۔ لہٰذا ان فرقوں کی نمایاں علامت جس سے ان کی پہچان ہوسکتی ہے، یہ ہے کہ کتاب وسنت اور اجماع امت کی مخالفت کرتے ہیں اور اس اختلاف کی بنیاد کسی ایسی تاویل پر نہیں ہوتی جو قرآن مجید کی زبان اور شریعت کے اصولوں کے مطابق ہو اور جس میں غلطی کرنے والے کو شرعاً معذور سمجھا جاسکے۔ (۴) وہ مسئلہ جو اما م الدعوۃ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے بیان فرمایا ہے اور جس کے متعلق انہوں نے کہا ہے کہ جس نے اسے سمجھ لیا اس نے دین کو سمجھ لیا جس نے اس پر عمل کیا وہ صحیح مسلمان ہے، یہ وہی مسئلہ ہے جو جواب کے دوسرے پیرے میں بیان ہوا، یعنی نجات پانے والے فرقہ کو اس علامت سے پہچاننا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے اور یہ کہ دوسرے فرقے وہ ہیں جو اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ لہٰذا جس شخص نے نجات پانے والے فرقے اور ہلاک ہونیوالے فرقے میں اس طرح امتیاز کیا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امتیاز کیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت کے مطابق ان دونوں کا فرق سمجھ لیا، اس نے دین کو (کماحقہ) سمجھ لیا۔ اسے معلوم ہونا جائے گا کہ وہ کون لوگ ہیں جن کے ساتھ رہنا چاہئے اور وہ کون لوگ ہیں جن سے دور بھاگنا چاہئے جس طرح انسان شیر سے بھاگتاہے اور جس نے اس صحیح فہم کے مطابق عمل کیا اور اہل حق وہدایت کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہا وہی صحیح مسلمان ہے۔ ’’نجات یافتہ فرقہ‘‘ کے اوصاف علم وعقیدہ کے لحاظ سے بھی اور قول وعمل کے لحاظ سے بھی اسی پر صادق آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مسئلہ سب سے عظیم ہے اور اس کا فائدہ بھی سب سے عظیم اور ہمہ گیر ہے۔ اللہ تعالیٰ شیخ محمد بن عبدالوہاب پر رحمت فرمائے ‘ جو عظیم بصیرت کے حامل تھے اور دین کی نصوص اور اس کے مقاصد کی گہری سمجھ رکھتے تھے۔ انہوں نے دین سے لاتعلقی رکھنے والا یہ مسئلہ جو مسلمانوں کے لئے بہت اہمیت کے حامل ہے کبھی اشارتاً
Flag Counter