Maktaba Wahhabi

150 - 453
بازار کی اہمیت: اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے: [وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ] [الفرقان 7] یعنی: اور انہوں نے کہا یہ کیسا رسول ہے؟ کہ کھانا کھاتا ہےاور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ مولانا عبد الرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ اپنی تفسیر تیسیر القرآن ج3 صفحہ 303 میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ اور کسب معاش یا خرید و فروخت کی خاطر وہ بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے ، کھانا پینا یا بازاروں میں چلنا پھرنا ، بزرگی یا نبوت کے منافی نہیں۔‘‘ اسی طرح حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اسی آیت کی وضاحت کرتے ہوئے تفسیر احسن البیان صفحہ 1043 میں رقمطراز ہیں۔ ’’یعنی رزق حلال کی فراہمی کیلئےکسب تجارت بھی کرتے تھے، مطلب اس سے یہ ہےکہ یہ چیزیں منصب نبوت کے منافی نہیں جس طرح کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔ احادیث مبارکہ میں وارد بازار میں داخل ہونے کی دعا بھی بازار کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور خرید فروخت کے غرض سے بازار جانے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحیی و یمیت وھوحی لا یموت بیدہ الخیر وھو علی کل شئی قدیر‘‘[1] بازار کی اہمیت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اس عمل سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ وہ خرید و فروخت کے مقصد کے بغیر محض امورِ دینیہ کی انجام دہی یا امور دینیہ کی جانب عوام کی توجہ مبذول کرانے کیلئے بازار کا رخ کرتے تھے چناچہ دو مثالیں پیشِ خدمت ہیں : (1)سیدنا امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح کی ’’کتاب العیدین فضل العمل فی ایام التشریق‘‘ میں لائے ہیں کہ : ’’وكان ابن عمر، وأبو هريرة: «يخرجان إلى السوق في أيام العشر يكبران،
Flag Counter