Maktaba Wahhabi

145 - 453
پھر کہو کیا میں داخل ہوسکتا ہوں ؟‘‘۔[1] اورسیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت آتی ہے کہ ایک شخص نے آ پ سے اجازت طلب کی کیا میں اندر آسکتا ہوں؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو منع فرمادیا تو بعض لوگوں نے اسے سمجھایا کہ پہلے سلام کرو ،اس نے سلام کیا ،تو انہیں اجازت دی گئی ۔ امام ابن سیرین رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اجازت طلب کی، کیا میں داخل ہوسکتا ہو ں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم یا خادمہ جس نام کا روضہ تھا کو حکم دیا کہ جاؤ اسے استئذان کا طریقہ سکھا ؤ وہ نہیں جانتا کہ استئذان کا طریقہ کیا ہے ۔اس کوکہو کہ سلام کرے پھر کہے کیا میں داخل ہوسکتاہوں اس شخص نے سن لیا اور ایسے ہی کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آنے کی اجازت دی ۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو سلام سے پہل نہ کرے اسے اجازت نہ دو‘‘۔ صیغہ استئذان کے متعلق روایت ہے :زید بن اسلم نے ایک بارعبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے استئذان کیا اور ’’أألج‘‘(زمانہ جاہلیت میں عرب کا استئذان تھا ): ابن عمر نے انہیں اجازت دیتے ہوئے کہا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے تم عرب کا استئذان استعمال کرتے ہو ! جب بھی استئذان کرو تو’’ السلام علیکم‘‘ کہا کرو جب تمہیں جواب مل جائے تو پوچھو کہ کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ ‘‘[2] امام بغوی رحمہ اللہ نے ذکر کیا کہ بعض علماء نے اختیار کیا کہ اگر انسان کی نظر پہلے پڑ جائے تو سلام پہلے کرے ورنہ استئذان پہلے کرے اور پھر سلام کرے ۔[3]
Flag Counter