Maktaba Wahhabi

316 - 453
اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ‘‘۔ [1] تیسرا اصول : رائے کے نتائج کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے بسا اوقات اس طرح کی صورت حال بن جاتی ہے کہ رائے دہی اصلا تو جائز ہوتی ہے اس میں کوئی شرعی مخالفت نہیں ہوتی لیکن حالات اس طرح کے درپیش ہوتے ہیں کہ اس موقع پر اظہار رائے سے فتنہ کے درآنے کا خدشہ ہوتاہے ۔ اور اس کے درپردہ بہت سے مفاسد اور نقصانات ابھر کر سامنے آجاتے ہیں ۔ شریعت مطہرہ کا بنیادی مقصد ومدعیٰ فساد ونقصانات کا خاتمہ ہے لہذا اس بنا پر کچھ مواقع ومحل ایسے ہوتے ہیں کہ رائے جائز ہونے کے باوجود اس کے اظہار سے گریز کرنا چاہئے ۔ اسی بنا پر اہل علم نے ایک قاعدہ وضع کیا ہے ( سد الذرائع المفضية إلی الفساد) جو بھی ذرائع فساد پر منتج ہوتے ہیں انہیں روکا اور ختم کیا جائے گا ۔ شریعت میں اس کی مثالیں موجود ہیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کو محض اس وجہ سے قتل نہیں کیا تھا کہ کہیں لوگ یہ نہ کہنے لگ جائیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے ہی لوگوں کو قتل کررہے ہیں ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مفتی حضرات کو وصیت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : " علی المفتی ان یمتنع عن الفتویٰ فیما یضر المسلمین ویثیر الفتن بينهم، وله ان یمتنع عن الفتوى إن كان قصد المستفتي كائناً من كان نصرة هواه بالفتوى وليس قصده معرفة الحق واتباعه ". [2] ’’مفتی کو چاہئے کہ ایسا فتویٰ دینے سے گریز کرے جو مسلمانوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچائے یا ان کے مابین فتنہ وشر انگیزی کا باعث بنے ۔ ایسی صورت میں وہ قطعا فتویٰ صادر نہ کرے چاہے مستفتی کوئی بھی ہو اس سے اس کی غرض اپنی خواہش اور رائے کی نصرت ہے نہ کہ حق کی پہچان اور اس کی اتباع ۔‘‘
Flag Counter