Maktaba Wahhabi

110 - 453
خود خاوند کے گھرسے نکل کر میکے چلی آئے بلکہ عورت گھر ہی میں رہے ، عورت کے گھر والے بھی اسے اپنے خاوند ہی کے گھر میں رہنے دیں البتہ پہل کرکے خاوند سے رابطہ کریں اور میاں بیوی کے درمیان پیدا ہونے والی رنجش کو دور کردیں اور اس کے لیے مناسب تدابیر اختیار کریں۔ ہمارے یہاں ایسی صورت میں اس کے برعکس بالعموم یہ ہوتا ہے کہ لڑکی والے لڑکی کو اپنے گھر لے آتے ہیں یا بعض لڑکیاں اتنی جسارت کرتی ہیں کہ از خود اپنے میکے آجاتی ہیں۔ ماں باپ بیٹی کی محبت میں اس کے اس غلط اقدام کی حمایت کرکے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں،یوں معاملہ بگڑ جاتاہے اور اختلاف کی چنگاری شعلہ بن جاتی ہے جس سے بعض دفعہ گھر ہی بھسم ہوکر رہ جاتاہے۔ بیٹی کی یہ محبت نادانشی پر مبنی ہے اور اس قسم کا فیصلہ جلد بازی کا مظاہرہ ہے ، نہ یہ بے دانشی صحیح ہے اور نہ یہ جلد بازی ہی مناسب ہے ، محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ بیٹی کا گھر آباد ہی رہے ، یہ جذبہ تمام باتوں پر غالب رہے ، اس کے لیے بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ بچی کو ہر حالت میں سسرال ہی میں رہنے دیا جائے اگر وہ خود آجائے تو اس کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اسے فوراً سسرال پہنچادیاجائے اور مناسب انداز سے باہم پیدا ہونے والے اختلاف کو دور کرنے کی سعی کی جائے، بیٹی کی غلطی ہوتو اس کی سرزنش کی جائے۔ سسرال والوں کی غلطی ہوتو ان کو سمجھایا جائے لیکن کسی حالت میں بھی بچی کو نہ خود گھر میں لاکر بٹھائیں اور نہ بچی کو گھر میں آنے دیں۔بچی سے محبت کا صحیح تقاضا اس کے گھر کو آباد رکھنا ہے نہ کہ اس کی حوصلہ افزائی کرکے اس کے گھر کو اُجاڑنا۔ شریعت اسلامیہ نے تو اس نکتے کو اتنی اہمیت دی ہے کہ پہلی اور دوسری طلاق میں بھی ، جن میں عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا حق رہتا ہے ، یہ حکم دیا ہے کہ مطلقہ کو خاوند ہی کے گھر میں رہنے دیاجائے، طلاق مل جانے کے باوجود والدین اس کو اپنے گھر مت لائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : [لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ] [الطلاق:1] ترجمہ:’’(طلاق کے بعد) ان کو ان کے(اپنے) گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، ہاں اگر وہ کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں تو اور بات ہے(پھر نکالنے کا جواز ہے)۔‘‘
Flag Counter