Maktaba Wahhabi

13 - 453
’’یورپ کے لوگوں کی اکثریت اب بھی عیسائیت کو اپنا مذہب قرار دیتی ہے مگر یورپی معاشرے میں بہت سے قوانین ، اقدار اور سماجی ادارے ایسے ہیں جن کا وجود عیسائیت کی تعلیمات سے لگا نہیں کھاتا چونکہ عرصہ قدیم سے یہ اس معاشرے میں موجود ہیں لہٰذا وہ انہیں اپنے کلچر کا حصہ سمجھتے ہوئے خیرباد کہنے کو تیار نہیں ۔[1] مثلا جسم فروشی ، شراب نوشی ، بے نکاح جنسی تعلقات وغیرہ یہ سب عیسائی مذہب میں ویسا ہی گناہ ہیں جیسے اسلام میں مگر یورپ وامریکہ میں Prostitution ، کو ایک مستقل سماجی ادارہ کی حیثیت حاصل ہے ۔ مے نوشی اور زنا اس معاشرہ کا کلچر بن چکا ہے لہٰذا وہ لوگ اسے آئینی تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں ۔ ہندو مت میں تقریبا ہر عمل کو مذہبی درجہ دیا جاتاہے اس لئے وہاں رقص ، گانا بجانا ، انواع واقسام کی موسیقی بھی مذہب کا درجہ رکھتی ہے ۔ ان کے ہاں ہر رسم تقریبا مذہب کا درجہ رکھتی ہے ۔ ہندوؤں کے ہاں جیسے خداؤں کی تعداد ان گنت ہے اسی طرح وہ اپنے معاشرے میں رائج ہر عمل کو مذہب کا درجہ دے دیتے ہیں ۔ اور جسے انہوں نے مذہب کا درجہ نہ دیا ہو اسے منانے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ جو دوسرے معاشروں سے برآمد کی گئی ثقافتی اقدار ہیں وہ انہیں اپنے متصادم تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رقص ، موسیقی ، ناچ گانے کو تقدس عطا کرنے والے ہندو معاشرے میں وہاں کا مذہبی طبقہ ویلنٹائن ڈے منانے کی اجازت نہیں دیتا ، کیونکہ یہ خالصتاً یورپی اور درآمد شدہ تہوار ہے ۔ ہندوستان میں نیشنل اِزم (قومیت) کا بہت پر چار کیا جاتا ہےجو محض کھوکھلا نعرہ ہے۔ وہ میڈیا اور فلموں، ڈراموں کے ذریعے ، سب اچھا ہے ، کا مظاہر ہ کرکے جمہوریت او ر قومیت کو فروغ دیتے ہیں۔ ان کے ہر پرو گرام ، ہر ڈرامہ اور ہر فلم میں ہندو مذہب کا کھلم کھلا پر چا ر ہو تا ہے اور ہزاروں سال پرانی برھمو سماج کی تہذیب کی نمائندگی کی جاتی ہے۔ اس سے ہر ذی شعور اندازہ کرسکتاہے کہ ہندو اپنی تہذیب وثقافت کے ساتھ جنون کی حد تک منسلک ہیں ۔ ہندو قوم درآمدی ثقافت کی بیخ کنی کرتی ہے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ۔ حتی کہ مسلمانوں نے وہاں ہزار سال سے زائد عرصہ حکومت کی ،اب بھی وہاں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان بستے ہیں جنہوں نے وہاں کے تہذیب وتمدن
Flag Counter