کا بوجھ بھی ہلکا ہوجاتا ہے اور معاشرہ کئی قسم کے تکلفات سے بھی آزاد ہوجاتا ہے ۔ذرا غور کریں ہم اپنے گھروں میں ہوں یا کسی بھی مقام پر اگر کوئی بغیر اجازت یا بغیر وقت لئے آجائے تو اکثرہماری طبع پر اس کا یہ فعل نہایت گراں گذرتا ہے ،ایسے میں اگر ہمیں کسی کو منع کرنا ہو تو ہم یا توجھوٹ کا سھارا لیتے ہیں یا پھر کوئی ایسا بہانہ تراشتے ہیں جس سے آنے والے کو بھی دھچکا لگتا ہے اور کہنے ولا بھی عجیب کشمکش میں واقع ہوجاتا ہے ۔اور ایک دوسرے کے بارے میں برے تصورات اور بد گمانیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ اس کے برعکس اگر سچ کہہ دیا جائے کہ ہم کسی عذر کی بناء پر نہیں مل سکتے تو آنے والے سے قطع تعلقی نہ گذیر ہوجاتی ہے کیونکہ آنے والے کو یہ تو احساس ہوتا ہے کہ مجھے اجازت نہ دے کر میری توہین کردی گئی، مگر اس کویہ احساس ہی نہیں کہ گھر والے کے ساتھ کیا مسائل و اعذار ہیں، کیونکہ آنے والے کو معلوم ہی نہیں کہ شریعت نے اسے کیا تعلیم دی ہے اور اسے ناراض ہونےکا کتنااختیار دیا ہے ۔ زیر نظر سطور میں گھریلو آداب سے متعلق اہم ہدایات قارئین کے سامنے رکھی جائیں گی اللہ تعالیٰ اسے سمجھنےکی توفیق عطا فرمائے ’’انه ولی علی ذلک و القادر عليه‘‘ (آمین ) گھر میں داخلے سے پہلےتو اجازت لینا اور گھر والوں کی آمد سے باخبر کر نا ضروری ہے ۔ اللہ تعالی کاا رشاد کریم ہے : {يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَهْلِهَا ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْهَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى يُؤْذَنَ لَكُمْ ۚ وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ مَسْكُوْنَةٍ فِيْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَكْتُمُوْنَ } [النور: 27-29] ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے، توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔پھر اگر ان میں کسی کو نہ پاؤ تو جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے اس میں داخل نہ ہونا۔ اور اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ آؤ۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کام تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |