Maktaba Wahhabi

252 - 362
طرح کسر نہیں رکھی۔ سیدھا صاف اس لیے کہ (کافروں کو) اس سخت عذاب سے ڈرائے جو اس کی طر ف سے آنے والا ہے اورمسلمانوں کوجو نیک کام کرتے ہیں یہ خوشخبری دے کہ ان کو اچھی مزدوری (بہشت )ملے گی۔جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔اوران لوگوں کو(بھی ) ڈرائے جوکہتے ہیں اللہ اولاد رکھتاہے نہ ان کے پاس اس بات کی کوئی سند ہے نہ ان کے باپ دادا کے پا س تھی۔بڑی (سخت )باپ بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے (معاذ اللہ کہ اللہ اولاد رکھتاہے )بالکل جھوٹ کہتے ہیں تو(اے پیغمبر )اگر یہ (کافر) اس قرآن پر یقین نہ لائیں توان کے پیچھے رنج کے مارتے شاید اپنی جان گنوائے گا(اپنے تئیں ہلاک کرے گا)۔ہم نے جو کچھ زمین پر بنایا اس کی رونق کے لیے (مثلاً باغ مکانات کھیتی باڑی وغیرہ )اس لیے کہ ہم لوگوں کو جانچیں ان میں اچھے کام کرتاہے۔اور ایک دن ہم جوکچھ اس پر ہے(صاف کر کے )چیٹل میدان بنادیں گے۔اور(اے پیغمبر )کیا تو یہ سمجھا ہے کہ غار اور تختے والے ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے ایک عجیب نشانی تھی۔جب ان جوانوں نے(ایک پہاڑ کی غار (کھوہ ) میں پناہ لی پھر دعا کرنی لگی مالک ہمارے ہم کو اپنی رحمت عنایت فرما اور ہمارا کام اچھی طرح سے بنادے۔ (ہم اپنے مقصد میں آسانی کے ساتھ کامیاب کردے) تو ہم نے کان تھپک دے۔‘‘ (ان کو سلادیا کئی برس تک سوتے رہے ) سیّدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جوکوئی دجال کو پالے، اسے چاہیے کہ سورۃ البقرہ کی شروع کی دس آیات پڑھے ۔‘‘ (مسلم) اس کا سبب : …کہا گیا ہے کہ : اس سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے غار والے ان مومن نوجوانوں کا ذکر کیا ہے جنہیں اس وقت کے جابر حکمران نے پکڑنے کا ارادہ کیا تھا،مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ دس آیات اہل کہف اور ان کی نجات کے عجیب و غریب قصہ پر مشتمل ہیں ، تومسلمان کو چاہیے کہ دجال سے مقابلہ کے وقت ان آیتوں کویاد کرے۔ پوری سورۂ کہف کا پڑھنا سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو کوئی سورت کہف کو ایسے ہی پڑھے جیسے نازل ہوئی ہے، پھر اسے دجال پالے، تووہ اس انسان پر
Flag Counter