غور کرو کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کو بیان کیا اور ربوبیت کی وسعت کی وضاحت کی۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا ذکر کیا اور اس کبریائی کے موطن بتلائے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی عزت و حکمت کا بیان فرمایا اور ان صفات کے بعد اس کی ذات کے لیے حمد کا اختصاص واضح کیا۔ ۲۔ ﴿وَ لَہُ الْحَمْدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ عَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْہِرُوْنَ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا﴾ (الروم: ۱۸، ۱۹) ’’آسمانوں میں اور زمین میں عشاء کو اور ظہر کو حمد اسی کو ہوتی ہے۔ وہی ہے جو مردہ سے زندہ کو اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے۔ وہی ہے جو زمین مردہ کو زندگی بخشتا ہے۔‘‘ غور کرو کہ تبدیلی اوقات اور تبدیلی حالات اور تقلبِ مخلوقات کی صفات پر حمد کو مبنی فرمایا ہے۔ ۳۔ ﴿وَ ہُوَ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ لَہُ الْحَمْدُ فِے الْاُوْلٰی وَ الْاٰخِرَۃِ وَ لَہُ الْحُکْمُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ﴾ (القصص: ۷۰) ’’وہی ہے جو اللہ ہے اور کوئی معبود نہیں ۔ معبود تو وہی ہے۔ ازل و ابد میں حمد اور حکم اسی ہی کو حاصل ہے اور سب نے اسی کے سامنے حاضر ہونا ہے۔‘‘ زمانہ کی اولیت و اخرویت پر حمد کو حاوی فرمایا اور الوہیت کے اختصاص سے حمد کی خصوصیت کا اظہار کیا۔ ان سب معانی کو پیش نظر رکھ کر اللہ تعالیٰ کا حمید، مالک الحمد ہونا معلوم کرو۔ اب یہ بھی یاد رکھو کہ حمد کو اسلام کے ساتھ بھی ایک عجیب خصوصیت ہے۔ ۱۔ ﴿اِنَّہٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ﴾ (ہود: ۷۳) ’’وہ تو حمد والا مجد والا ہے۔‘‘ ۲۔ ﴿تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ﴾ (حٰمٓ السجدۃ: ۴۲) ’’یہ تو حکمت والے، حمد والے کا اتارا ہوا ہے۔‘‘ |
Book Name | اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات |
Writer | پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الدراوی |
Publisher | مکتبہ امام احمد بن حنبل مظفرآباد آزاد کشمیر |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 146 |
Introduction |