’’یوم دین وہ ہے جس روز کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے ذرا سا بھی کام نہ آئے گا اور اس روز ساری حکومت اللہ تعالیٰ ہی کی ہوگی۔‘‘ مُلک بھی آیا ہے اور اس کے معنی بھی فرقان حمید میں بتلا دیے گئے ہیں ۔ ﴿تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ﴾ (آل عمران: ۲۶) ’’جسے چاہتا ہے ملک عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک لے لیتا ہے۔ مالک بلا اضافت داروغہ جہنم کا نام بتلایا گیا ہے۔‘‘ ﴿وَنَادَوْا یَامَالِکُ﴾ (الزخرف: ۷۷) مَلِک قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے لیے آیا ہے اور دوسروں کے لیے بھی۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے: ﴿الْمَلِکُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ﴾ (الحشر: ۲۳) بشر کے لیے: ﴿قَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖ﴾ (یوسف: ۵۰) ’’بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ۔‘‘ ﴿اِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا﴾ (البقرۃ: ۲۴۷) ’’اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے۔‘‘ مَلِیْک اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے لیے مستعمل نہیں ہوا۔ مَالِکَ فاعل ہے۔ مَلِک فَعِل ہے جو اوزان مبالغہ میں سے ہے اور مَلِیْک، فَعِیْل ہے۔ فَعِیْل میں بمقابلہ فاعل و فَعِیلَ یہ مزید خوبی ہے کہ اس صفت کا لزوم خود ذاتِ موصوف سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مَلِیک ہے کیونکہ اس کی ملک داری میں کسی دوسرے کو شرکت حاصل نہیں ۔ ﴿وَّ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ﴾ (بنی اسرائیل: ۱۱۱) |
Book Name | اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات |
Writer | پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الدراوی |
Publisher | مکتبہ امام احمد بن حنبل مظفرآباد آزاد کشمیر |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 146 |
Introduction |