Maktaba Wahhabi

606 - 645
ان تمام امور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہوں کے ظلم پر صبر کرنے ؛ اور ان سے جنگ ترک کرنے کا جو حکم دیا ہے؛ وہ بندوں کے لیے معاش اور معاد ہر لحاظ سے بہتر تھا۔ اور جس نے بھی اس کی مخالفت کی ؛ خواہ جان بوجھ کر ہو یا غلطی سے ؛ تو اسے کوئی بھلائی نہیں ملی؛ بلکہ خرابی اور فساد ہی پیدا ہوا۔یہی وجہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا: ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘ اس حدیث میں آپ نے صلح کرانے کی بنا پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی مدح و ستائش فرمائی۔ آپ نے کسی ایک کی بھی تعریف لڑائی ؛ فتنہ؛ حکمرانوں کے خلاف خروج اور ان کی اطاعت سے روگردانی اور جماعت سے مفارقت کی بنا پر نہیں کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تمام صحیح أحادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے؛ فرماتے ہیں : میں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا؛ وہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا؛ آپ منبر پر تھے؛ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے؛ آپ کبھی لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرما رہے تھے: ’’بیشک میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے سردار ہونے کی خبردی ہے؛ اور یہ خبر بھی دی ہے کہ اللہ آپ کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ دونوں گروہوں کے مابین صلح کرانا محبوب اور ممدوح امر تھا؛ایسا کام جس کو اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے تھے۔ اور جو کچھ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کیا ؛ وہ آپ کے بڑے فضائل اور ان مناقب میں سے تھا جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی تعریف کی ہے۔ اگر قتال واجب یا مستحب ہوتا؛ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ترک کرنے پر کسی کی تعریف نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جو کچھ جمل اور صفین میں پیش آیا؛ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی کوئی تعریف نہیں کی؛ کجا کہ واقعہ حرہ کا کوئی ذکر ہو؛ یا جو کچھ مکہ مکرمہ میں حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے محاصرہ کے وقت پیش آیا؛ یا پھر جو کچھ ابن اشہب اور ابن مہلب وغیرہ کے فتنوں میں پیش آیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ خوارج سے قتال کا حکم منقول ہے؛ جن سے پھر امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہروان کے مقام پر قتال کیا تھا؛ اس سے پہلے وہ حروراء میں بھی بغاوت کرچکے تھے۔اس بارے میں سنت مشہور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ لڑنے کا حکم دیا تھا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ لڑی تو آپ اس جنگ پر بہت خوش تھے۔ اور ان کے بارے میں احادیث روایت کی گئی ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ان سے جنگ کے مسئلہ پر اتفاق و اجماع تھا۔ ایسے ہی ان کے بعد ائمہ اہل علم کے نزدیک یہ قتال جنگ جمل اور صفین کی طرح نہیں تھا جس کے بارے میں کوئی نص اور اجماع منقول نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس میں شریک افاضل
Flag Counter