Maktaba Wahhabi

62 - 645
نزدیک واجب ہوجاتی ہے۔ اور انبیائے کرام علیہم السلام وغیرہ میں سے جو رحمت کے مستحق ہیں ، ان کے حق میں رحیم نہ ہوگا، اور اس ظالم کے حق میں بھی غفور ورحیم نہ ہوگا۔ جس نے ظلم کے بعد نیکی کر لی، اور جب قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ توبہ تائب ہونے والوں کے لیے غفار اور مومنوں پر رحیم ہے تو معلوم ہو گیا کہ وہ مغفرت رحمت کے ساتھ متصف ہے، اور اگر اس سے اس کے ساتھ عذاب ممتنع ہے کہ وہ عقاب کا مستحق ہو تو بھی اسے مغفرت و رحمت کے ساتھ متصف کرنا ممتنع نہ ہوگا۔ جیسا کہ اسے بخشنا اور رحم کرنا وغیرہ۔ جسے ان کے نزدیک عقاب دینا مستحسن نہیں ۔ بندہ معصیت کا فاعل ہے یا کاسب؟ چوتھا جواب : بندے سے جو معصیت صادر ہوتی ہے اکثر علماء کے نزدیک وہ اس کا فاعل ہے اور بعض کے نزدیک کاسب۔ اس قول کی روشنی میں یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ آدمی ظالم کو سزا دینے کا استحقاق رکھتا ہے۔ پس اﷲ تعالیٰ ظالموں کو سزا دینے کا اس سے بھی زیادہ مستحق ہے، جہاں تک اﷲ تعالیٰ کے معصیت کو پیدا کرنے کا تعلق ہے، وہ اس کی حکمت و مصلحت پر مبنی ہے، یہ جمہور کا نظریہ ہے جو افعال الٰہی کو مبنی بر حکمت قرار دیتے ہیں ، یا معصیت کی تخلیق اس کی مشیت کے تابع ہے، یہ ان لوگوں کا نقطۂ نظر ہے جو افعال باری تعالیٰ کو معلل بالحکمت نہیں سمجھتے۔ فصل:....تکلیف ما لایطاق پر اہل سنت کا عقیدہ اورشبہ کا ردّ [اعتراض]:شیعہ مصنف کا قول ہے: ’’اس سے تکلیف ما لا یطاق لازم آتی ہے۔ اس لیے کہ اس میں کافر ایمان لانے کے لیے مکلف و مامور ہے حالانکہ بقول ان کے اس میں یہ قدرت ہی موجود نہیں ،یہ بات عقلاً قبیح ہے اور شرعاً ممنوع ہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ لَا یُکِلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ (البقرۃ:۲۸۶) ’’اﷲ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔‘‘ [انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]:اس کا جواب یہ ہے کہ قائلین تقدیر کے بندہ کی قدرت کے بارے میں دو قول ہیں : پہلا قول: یہ ہے کہ قدرت مع الفعل ہوتی ہے بنا بریں جس کافر کے متعلق علم الٰہی میں لکھا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائے گا وہ کبھی ایمان لانے پر قادر نہیں ہوگا۔مصنف نے جو کچھ ذکر کیا ہے؛ وہ اسی پر وارد ہوتا ہے۔ دوسرا قول:قدرت کی دو اقسا م ہیں ۔ جو قدرت احکام کے مکلف بنانے میں شرط ہے وہ قبل از فعل اور تا وقوع فعل ہوتی ہے اور جو قدرت فعل کو مستلزم ہوتی ہے وہ لازماً مع الفعل ہوتی ہے۔ ان کے قول کی اصل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مومن پر اپنا فضل خصوصی فرمایا ہے جس کی بنا پر وہ راہ ہدایت اختیار کرتا ہے، جبکہ کافر اطاعت نہ کرکے اس سے محروم رہتا ہے۔ نیز یہ کہ عند الفعل بندے کا قادر ہونا ضروری ہے۔ اس کے بر خلاف بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بندہ صرف قبل الفعل قدرت سے بہرہ ور ہوتا ہے، علاوہ ازیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مورد فضل و عنایت ربانی ہونے کے اعتبار سے مومن و کافر مساوی
Flag Counter