Maktaba Wahhabi

561 - 645
[حضرت حسن رضی اللہ عنہ کاقاتل کون؟]: [انیسواں اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن کو رضی اللہ عنہ زہر کھلایا تھا۔‘‘ [جواب]:بعض لوگوں نے یہ بات کہی ہے۔[1]مگر کسی شرعی دلیل و برہان سے یا کسی معتبر کے اقراریا کسی سچے ناقل کے کلام سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔اور نہ ہی اس کا علم ممکن ہے۔پس یہ کہنا کہ آپ نے حضرت حسن کو زہر دیا تھا؛ بغیر علم کے بات ہے۔ہمارے اس زمانے میں بھی کہا جاتا ہے کہ فلاں بادشاہ کو زہر دے کر قتل کیا گیا ۔مگر لوگوں کا اس میں اختلاف ہوتا ہے۔یہاں تک کہ جس جگہ و مقام پرجس قلعہ میں اس بادشاہ کا انتقال ہوگیا ہو‘ وہاں کے رہنے والوں میں بھی اس حقیقت میں اختلاف ہوتا ہے۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہر آدمی دوسرے کے برعکس کوئی اور بات کہتا ہے۔کوئی ایک کہتا ہے: اس کو فلاں نے زہر دی۔دوسرا کہتا ہے: نہیں اسے فلاں نے زہر دی؛ کیونکہ اس کے ساتھ کوئی معاملہ پیش آگیا تھا۔یہ حال تو آپ کے زمانے میں پیش آنے والے واقعات کا ہے۔اوران لوگوں کا بیان ہے جو خود اس قلعہ کے اندر موجود تھے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کو زہر دیا گیا۔اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ممکن بھی ہے۔ اس لیے کہ زہر دے کر قتل کیے جانے والے کی موت کسی پر مخفی نہیں رہتی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی نے آپ کو زہر کھلایا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی موت مدینہ طیبہ میں واقع ہوئی۔جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ شام میں تھے ۔اس بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کسی آدمی کو بھیجاہو‘یا پھر کسی کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہو۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کی بیوی نے آپ کو زہر اس لیے دیا چونکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کثرت سے طلاق دیا کرتے تھے۔ اس لیے ممکن ہے کہ ان کی بیوی نے کسی مقصد کے لیے آپ کو زہرکھلایا ہو۔ واللہ اعلم۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس عورت کے والد اشعث بن قیس نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو زہر کھلانے کا حکم دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اندرونی طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ و حسن رضی اللہ عنہ سے منحرف ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کے والد کو اس بات پر مامور کیا تھا۔ یہ ظن محض ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَاِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْحَدِیْثِ‘‘[2] ’’بدگمانی سے بچو، کیوں کہ یہ بڑی جھوٹی بات ہے۔‘‘ خلاصہ یہ کہ باتفاق مسلمین شرعاً ایسی بلا دلیل بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس پر کسی کی مدح یا مذمت کا ترتب
Flag Counter