Maktaba Wahhabi

127 - 645
چہارم : یہ ہے کہ نبوت کے دلائل و براہین کا دائرہ صرف خوارق ہی میں نہیں بلکہ ان کی کئی قسمیں ہیں جس طرح جھوٹ کی پہچان حاصل کرنے کے متعدد طریقے ہیں ۔اس مسئلہ پر بھی اپنی جگہ پر تفصیل کے ساتھ گفتگو ہو چکی ہے۔ فصل:....مسئلہ تقدیر اور تعطیل حدود [اہل سنت کے عقیدہ تقدیر سے متعلق مسئلہ پر رافضی کا کلام کہ ’’اس سے تو حدود اور معاصی پر زجر کا تعطل لازم آتا ہے‘‘ اور اس کا ردّ] [اعتراض]:شیعہ مضمون نگار لکھتا ہے: ’’اگر اہل سنت کی بات تسلیم کر لی جائے تو اس سے شرعی حدود کا بے کار ہونا لازم آتا ہے، مثلاً زنا اور سرقہ جیسے جرائم کا صدور جب اﷲتعالیٰ کے ارادہ کے مطابق ہو اور اس کا ارادہ ان افعال کی انجام دہی میں مؤثر ہو تو کسی بادشاہ کو اس پر گرفت کرنے کا حق حاصل نہ ہوگا۔ اس لیے کہ جو شخص ایسا کرتا ہے وہ چور کو اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے باز رکھنے کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ اور اسے ایسے کام پر لگاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے۔ ظاہر کہ اگر کوئی شخص ہمیں اپنے ارادہ کی تکمیل سے باز رکھنے کی کوشش کرے تو ہمیں اس سے کوفت ہوگی،اور ایسا کرنے والا ملامت کا مستحق ٹھہرے گا؛ تو پھر اﷲ تعالیٰ کو یہ بات کیوں کر پسند ہوگی؟ اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اﷲتعالیٰ نقیضین کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے، ایک طرف تو وہ معصیت کا ارادہ کرتا ہے اور پھر اس سے روکتا بھی ہے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]:ہم کہتے ہیں : گزشتہ میں اس کی کافی وضاحت گزر چکی ہے لیکن پھر بھی ہم یہاں اس کا متعدد طرح سے جواب دیں گے۔ ان شاء اللہ! اول:....یہ کہ اﷲتعالیٰ نے صرف ان امور کو مقدر کیا تھا جو ظہور پذیر ہو چکے ، جو امور تا ہنوز عالم وجود میں نہیں آئے، وہ اﷲ کے علم میں بھی مقدر نہیں تھے۔ جو امور وقوع پذیر ہو چکے ہیں ، کوئی شخض ان کے روکنے پر قادر نہ تھا۔ شرعی حدود و زواجر سے ان امور کو روکا جاتا ہے، جو ابھی وقوع میں نہیں آئے۔ سو جو اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا۔ ٭ شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: ’’وہ شخص چور کو اﷲ کے ارادہ سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘ ٭ یہ صریح جھوٹ ہے؛ کیونکہ وہ شخص تو چور کو اس کام سے روکنا چاہتا ہے جو اس نے ابھی سر انجام نہیں دیا، اور جو کام ابھی وقوع پذیر نہیں ہوا، اس کا ارادہ اﷲ نے بھی نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص حلف اٹھا کر کہے کہ ان شاء اﷲ وہ اس مال کو چرالے گا اور پھر اسے نہ چرائے تو وہ اجماعاً اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ نے یہ نہیں چاہا کہ وہ چوری کا مرتکب ہو۔ [ارادہ اور امرمیں فرق و امتیاز:] بخلاف ازیں قدریہ (منکرین تقدیر) ارادہ کو امر کے معنی میں لیتے ہیں ؛ وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ سرقہ جب اﷲتعالیٰ کے ارادے سے وقوع میں آتا ہے، تو وہ مراد کے ساتھ ساتھ ماموربہ بھی ہے۔
Flag Counter