Maktaba Wahhabi

641 - 645
[قاتلین حسین رضی اللہ عنہ اور اہل سنت کا موقف]: [اشکال ]:شیعہ مصنف کی پیش کردہ حدیث کہ ’’ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل آگ کے ایک صندوق میں ہوگا اور اسے تمام اہل جہنم سے آدھا عذاب ہو رہا ہوگا۔اور اس کے ہاتھ اور پاؤں آگ کی زنجیروں سے باندھ دیے گئے ہوں گے؛ یہاں تک کہ اسے جہنم کے ایسے انتہائی گہرے گڑھے میں ڈال دیا جائے گا اس کے عذاب اور بدبو سے جہنمی میں بھی اپنے رب سے پناہ مانگ رہے ہوں گے۔وہ ہمیشہ ہمیشہ اس دردناک عذاب میں مبتلا رہے گا....الخ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب]:یہ ایسے شخص کا بیان کردہ جھوٹ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دروغ گوئی سے شرماتا نہ ہو۔ پھر اس پر یہ اضافہ کہ قاتل حسین رضی اللہ عنہ کو سب اہل جہنم سے آدھا عذاب دیا جائے گا۔کیا جہنم کے عذاب کے آدھا ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ؟ اب سوال یہ ہے کہ پھر آل فرعون؛ آل مائدہ ؛ اور باقی سارے منافقین اور کفار کے لیے کیا باقی رہا؟ اور قاتلین انبیاء علیہم السلام سابقین اولین کے قاتلین کے لیے کیا باقی رہا؟ خصوصاً جب کہ حضرت عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم کا قاتل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل سے بھی بڑے مجرم ہیں ۔[1] اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قاتل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل سے بڑا گہنگار ہے۔ روافض کا یہ غلو نواصب کے اس قول سے بڑی حد تک ملتا جلتا ہے جن کا عقیدہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ خوارج میں سے تھے اور انھوں نے ملت کے شیرازہ کو منتشر کرنا چاہا۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل حدیث کی بنا پروہ مباح الدم تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’ جو شخص آکر تم میں تفریق پیدا کرنا چاہے؛ اورتمہارا معاملہ ایک انسان کے ہاتھ میں ہو تو اسے قتل کردو خواہ وہ کوئی بھی ہو۔‘‘[2] اہل سنت والجماعت ان دونوں گروہوں کے غلو کو رد کرتے ہیں ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ: حضرت حسین رضی اللہ عنہ بحالت مظلومی شہید ہوئے اور آپ کے قاتل ستم ران اور ظالم ہیں ۔ وہ احادیث مبارکہ جن میں جماعت سے علیحدہ کرنے والے سے قتال کا حکم ہے؛ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ان احادیث کا مصداق نہیں ہو سکتے اس لیے کہ آپ نے امت میں انتشار پیدا نہیں کیا تھا۔ آپ کو اس وقت شہید کیا گیاتھا، جب آپ واپس مدینہ جانے کے خواہاں تھے یا محاذ جنگ پر جانا چاہتے تھے ؛ یا پھر یزید کے ہاں تشریف لانا چاہتے تھے۔ آپ جماعت میں داخل تھے ۔ اور کسی طرح بھی امت میں تفریق نہیں پیدا کرناچاہتے تھے ۔ ایسا مطالبہ اگر کسی ادنی انسان کا بھی
Flag Counter