یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں فقہاء کے مابین اختلاف و نزاع ہے ۔پس جو لوگ حکمران کی اطاعت ترک کرنے پر قتال کو جائز قرار دیتے ہیں ‘ وہ اس جنگ کو بھی جائز کہتے ہیں ۔ یہ فقہاء کی ایک جماعت کا قول ہے ‘اور امام شافعی سے بھی منقول ہے۔ اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ترک کے علاوہ کسی چیز پر قتال کو جائز نہیں سمجھتے ‘ اور نہ ہی کسی متعین شخص [حاکم] کی اطاعت ترک کرنے پر قتال کو جائز سمجھتے ہیں ‘ وہ ان لوگوں سے قتال کو بھی جائز نہیں سمجھتے۔
پس جملہ طور پر خلاصہء کلام یہ ہے کہ : جن لوگوں سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے قتال کیا ‘ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے رکے ہوئے تھے اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کو نہیں مانتے تھے۔اسی وجہ سے وہ مرتد ٹھہرے ۔ بخلاف ان لوگوں کے جو اس کا اقرار کرتے ہیں ؛ لیکن کسی متعین شخص کی اطاعت کو تسلیم نہیں کرتے؛ جیسے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام ۔ اس لیے کہ یہ لوگ ان تمام چیزوں کو مانتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیکر آئے تھے۔ نماز قائم کرتے تھے ‘ زکوٰۃ ادا کرتے تھے ۔ اور کہتے تھے : ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت میں داخل ہوئے بغیر بھی واجبات ادا کریں گے۔ ایسا کرنے میں ہمیں ضرر لاحق ہوگا۔ تو پھر کہاں یہ لوگ اور کہاں وہ لوگ ؟ [تو شیعہ اس کے جواب میں نواصب کو کیا کہیں گے؟]
[مانعین زکواۃ اور فقہاء کا مؤقف ]:
یہ جان لینا چاہیے کہ فقہائے کرام جن کا تعلق امام ابو حنیفہ ؛ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے اصحاب سے ہے؛ وہ خوارج اور مانعین زکواۃ سے جنگوں کو باغیوں کے خلاف جنگیں قرار دیتے ہیں ۔ اوروہ جمل اور صفین کو بھی اسی باب سے شمار کرتے ہیں ۔ یہ قول کبار ائمہ اسلام کے قول کے خلاف ہے؛ اورامام مالک ؛ احمد اور ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ سلف رحمہم اللہ سے وارد منصوص کے بھی خلاف ہے۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد سنت کے بھی مخالف ہے۔ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج سے جنگ کرنے کا حکم دیا تھا؛ اوراس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی اتفاق تھا۔ جبکہ جمل اور صفین کی جنگیں فتنہ کی
[1]
|