Maktaba Wahhabi

34 - 645
ان کے گمان میں قدرت نوعِ واحد سے جو ضدین کے مناسب نہیں ، اور ان میں سے بعض کا گمان یہ ہے کہ قدرت عرض ہے۔ لہٰذا یہ دو زمانوں میں باقی نہ رہے گی۔ لہٰذا فعل سے قبل اس کا وجود ممتنع ہوگا۔ لیکن درست وہ قول ہے جو آئمہ فقہ و اہل سنت کا ہے کہ قدرت کی دو انواع ہیں ۔ ایک نوع وہ ہے جو فعل کی تصحیح کرنے والی ہے۔ اس کے فعل اور ترک دونوں جائز ہیں ۔ یہی وہ قدرت ہے جس کے متعلق امر و نہی ہوتا ہے۔ یہ مطیع اور عاصی دونوں کو حاصل ہوتی ہے، اور یہ فعل سے قبل ہوتی ہے۔ یہ قدرت فعل تک باقی رہتی ہے۔ چاہے عرض بن کر جیسا کہ اس کے نزدیک جو قدرت کو عرض مانتا ہے اور چاہے قدرت کے امثال کے تجدد کے ساتھ اس کے نزدیک جس کا یہ قول ہے کہ اعراض باقی نہیں رہتے، اور یہ قدرت ضدین کے مناسب ہے۔ استطاعت کی تعریف: اور اللہ کا بندوں کو امر اس طاقت کے ساتھ مشروط ہے۔ جس میں یہ طاقت نہ ہو اللہ اسے مکلف نہیں بناتا، اور اس کی ضد عاجزی و درماندگی ہے۔ اس کا ذکر اس ارشادِ باری تعالیٰ میں ہے: ﴿وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحِ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ﴾ (النساء: ۲۵) ’’اور تم میں سے جو مالی لحاظ سے طاقت نہ رکھے کہ آزاد مومن عورتوں سے نکاح کرے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ یُہْلِکُوْنَ اَنْفُسَہُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ ﴾ (التوبۃ: ۳۲) ’’اور عنقریب وہ اللہ کی قسم کھائیں گے کہ اگر ہم طاقت رکھتے تو تمھارے ساتھ ضرور نکلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ بے شک وہ ضرور جھوٹے ہیں ۔‘‘ ﴿فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَاسَّا فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِِطْعَامُ سِتِّینَ مِسْکِیْنًا﴾ (المجادلہ: ۳) ’’تو دو پے درپے مہینوں کا روزہ رکھنا ہے، اس سے پہلے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ، پھر جو اس کی (بھی) طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔‘‘ اس میں اس کی استطاعت کی نفی کا بیان ہے، جس نے فعل نہیں کیا لہٰذا یہ فعل کے ساتھ نہ ہوگی اور اسی معنی میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’کھڑے ہو کر نماز پڑھئے، اگر کھڑا ہونا ممکن نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر بیٹھنے پر قادر نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھو۔‘‘[1]
Flag Counter