Maktaba Wahhabi

240 - 645
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب میں بھی یہی حکم ہے ؛ اور امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے۔پس جس کا مذہب یہ ہو کہ لواطت زنا سے زیادہ سخت اور بری چیز ہے توپھر اس سے کیسے یہ حکایت نقل کی جاسکتی ہے کہ اس نے لواطت کو مباح قرار دیا ہے ؟ ۔ ایسے ہی آپ کے علاوہ بھی کسی دوسرے عالم نے اس عمل کو مباح نہیں کہا۔بلکہ ان سب کا اس فعل کے حرام ہونے پر اتفاق ہے ۔ لیکن بہت ساری چیزیں ایسی ہیں کہ علماء کرام کا ان کے حرام ہونے پر اتفاق ہوتا ہے ؛ مگر اس کا ارتکاب کرنے والے پر حد قائم کرنے کے بارے میں ان کے مابین اختلاف ہوتا ہے کہ کیا اس پر حد لگائی جائے ؟ یا پھر اسے تعزیر سے سزا دی جائے جوکہ حد سے کم ہو؛ جیسے کوئی اپنی ایسی مملوکہ سے وطی کردے جو اس کی رضاعی بیٹی بھی ہو؟ ۔ [شطرنج ‘گانے اور ساز کی اباحت کا الزام]: [الزام]:[شیعہ مصنف نے کہا ہے : اہل سنت کے ہاں ] ’’شطرنج باجے گاجے اور ساز وغیرہ اسباب غفلت مباح ہیں ۔‘‘ [جواب] : جمہور علماء کرام رحمہم اللہ کے مذہب میں شطرنج حرام ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ آپ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو شطرنج کھیل رہے تھے؛ تو آپ نے فرمایا : ’’یہ کیا مورتیاں ہیں جن پر تم جم کر بیٹھے ہو؟‘‘ ایسے ہی حضرت ابو موسیٰ؛ ابن عباس ؛ ابن عمر ؛ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کی ممانعت منقول ہے ۔ لیکن اس بارے میں ان کا اختلاف ہے کہ : ان میں سے کس کی حرمت زیادہ ہے شطرنج کی یا نرد کی ؟ امام مالک رحمہ اللہ شطرنج کو نردسے زیادہ سخت حرام سمجھتے ہیں ۔ یہی بات ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ اس لیے کہ شطرنج دل کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے مشغول کردیتا ہے۔اور نرد سے بڑھ کر نماز اورذکر الٰہی میں غفلت کا سبب بنتا ہے ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک نرد کی حرمت شطرنج سے بڑھ کر ہے ۔جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی شطرنج کو حلال نہیں کہا؛ لیکن آپ نے یہ کہا ہے: ’’ نرد حرام ہے اور شطرنج اس سے کم درجہ کا ہے۔اور میرے لیے شرح صدر نہیں ہورہی کہ کیا یہ بھی حرام ہے؛ توآپ نے اسے حرام کہنے میں توقف کیا ہے ۔جب کہ اس بارے میں آپ کے اصحاب کے دو قول ہیں ۔اگر تحلیل کا قول راجح ہو تو پھر بھی اس میں کوئی ضرر نہیں ۔اور اگر تحریم کا قول راجح ہو تو پھر بھی یہی جمہور اہل سنت والجماعت کا قول ہے۔ پس دونوں صورتوں میں حق اہل سنت والجماعت سے باہر نہیں ۔ [گانے بجانے کی اباحت کی الزام اور اس پر ردّ] [الزام]:[شیعہ مصنف کہتا ہے : اہل سنت کے ہاں ] ’’باجے گاجے اور ساز وغیرہ مباح ہیں ۔‘‘ [جواب] : یہ ائمہ اربعہ پر جھوٹ ہے ۔اس لیے کہ ائمہ اربعہ کا ساز و باجے اور آلات لہو لعب کے حرام ہونے پر اتفاق ہے ؛اگر کسی نے ان میں سے کوئی چیز ضائع کردی تو اس تلف کرنے والے پر کوئی تاوان نہیں ہو گا ؛ بلکہ ائمہ اربعہ کے ہاں ان چیزوں کا رکھنا بھی حرام ہے ۔ لیکن کیا وہ اس کے مادہ کا تاوان ادا کرے گا۔ اس بارے میں ان کے دو مشہور قول ہیں ؛جیسا کہ اگر کوئی شراب کے برتن تلف کردے ؛ اور اس کے ساتھ ہی شراب بنانے کے مادہ کو بھی تلف کردیا توایک قول کے مطابق اس پر کوئی تاوان نہیں ہوگا؛جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب ہے ۔ اور امام احمد رحمہ اللہ سے دو مشہور
Flag Counter