Maktaba Wahhabi

367 - 645
میں صرف چار رکعت ہی پڑھیں گے۔ اورجو لوگ یہ کہتے ہیں : صرف میں چار رکعت پڑھنا دو رکعت پڑھنے سے زیادہ افضل ہے۔اورجو لوگ کہتے ہیں :ہم ایک گواہ اور قسم کی موجودگی میں حکم نہیں لگا سکتے۔ اس مسئلہ پر کئی مواقع پر تفصیلی گفتگو ہوچکی ہے۔ اور یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ جس پر ظاہر قرآن دلالت کرتا ہے ‘ وہ حق ہے۔اور یہ عام مخصوص نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہاں پرکوئی لفظی عموم نہیں پایا جاتا ۔ بلکہ یہ مطلق ہے ۔ جیسا فرمان الٰہی ہے: ﴿ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ ﴾۔[التوبۃ ۵] ’’ اورمشرکین کو قتل کرو۔‘‘ یہ تمام اعیان مشرکین کے لیے عام حکم ہے۔اور تمام احوال میں مطلق ہے۔ اور جیسا کہ فرمان الٰہی ہے : ﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ﴾۔[النساء۱۱] ’’اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت فرماتا ہے۔‘‘ یہ حکم بھی تمام اولاد کے لیے عام ہے اور ہر حال میں مطلق ہے۔ لفظ ’’ظاہر ‘‘ سے کبھی مراد وہ چیز ہوتی ہے جو کسی انسان کے لیے ظاہر ہو۔ اور کبھی اس سے مراد وہ معنی ہوتا ہے جس پر لفظ دلالت کرتا ہو۔ پہلی مراد لوگوں کے افہام کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ اور قرآن میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو کہ فاسد فہم کے خلاف ہیں ۔ جب کہ ساری بحث کا مرکز دوسرا معنی ہے ۔ فصل: ....حج تمتع اورمتعہ کا مسئلہ [اعتراض]: رافضی مصنف کہتا ہے : ’’ اور جیساکہ متعتین جن کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔ متعۃ الحج کے متعلق قرآن کریم میں آیا ہے : ﴿فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہُدْی﴾ [البقرۃ۱۹۶] ’’ تو جو شخص حج کا زمانہ آنے تک عمرہ کرنے کا فائدہ اٹھانا چاہے وہ قربانی کرے جو اسے میسر آ سکے۔‘‘ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کیا تو حج تمتع کے چھوٹ جانے پر افسوس کااظہار کیا؛اورفرمایا : ’’اگر مجھے اس کا بروقت علم ہوجاتا تو میں قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور میں بھی تم سے پیچھے نہ رہتا۔‘‘اور متعہ نساء کے متعلق فرمایا: ﴿ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ﴾ [النساء ۲۳] ’’اور ان خواتین میں سے جن سے تم فائدہ اٹھالو ‘ انہیں ان کی اجرت دیدو۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع کے دور میں ان دونوں چیزوں کے متعلق یہی عمل سنت رہا۔ یہاں تک کہ عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ منبر پر
Flag Counter