Maktaba Wahhabi

60 - 645
ہویا ایسے فعل سے جو قول کا قائم مقام ہو؛ ظاہر ہے کہ ذات باری سے اس کا صدور محال ہے؛ کیونکہ (کذب بیانی) ایک مذموم و صف ہے، اورعقلی طور پر اﷲ سبحانہ تعالیٰ تمام نقائص اور عیوب سے منزہ ہے؛ اس پر تمام اہل خرد و دانش کا اتفاق ہے۔ جو یہ کہتا ہے کہ: اللہ سے فعلِ قبیح متصور نہیں ، بلکہ اس کا ہر ممکن فعل حسن ہے جب وہ اسے کرے۔ وہ کہتا ہے: جو فعل صفاتِ کمال کے سلب کو اور نقص کے اثبات کو مستلزم ہو، وہ اس پر ممتنع ہے۔ جیسے عجز، جہل وغیرہ، اور کذب ایک صفتِ نقص ہے۔ جبکہ صدق صفتِ کمال ہے، اور کذاب کی تصدیق بھی ایک طرح کا کذب ہے۔ جیسا کہ صادق کی تکذیب بھی ایک قسم کا کذب ہے۔ تو جب کذب ایک صفتِ نقص ہے تو یہ اللہ کے حق میں ممتنع ہے۔ ہم نے یہ بات ایک دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کر دی ہے، اور ہمارا مقصد یہ نہیں کہ جو بھی اہلِ سنت کی طرف ہے اس کی تصدیق کرتے جائیں ۔ بلکہ ہم حق بیان کریں گے، اور حق یہ ہے کہ اہل سنت خطا پر کبھی متفق نہیں ہوتے، اور شیعہ جہاں بھی اہلِ سنت سے جدا ہوئے ہیں ، خطا پر رہے ہیں ۔ بلکہ جس امر میں بھی شیعہ نے جمیع اہلِ سنت کی مخالفت کی ہے اس میں خطا پر ہیں ۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے جس امر میں بھی سب مسلمانوں کی مخالفت کی ہے، اس میں وہ گمراہ ہیں ۔ چاہے بے شمار مسلمان خود بھی خطا پر رہے ہیں ۔ جہم بن صفوان نے قدر کے جن مثبتین کی اس بات میں موافقت کی ہے کہ اللہ کا کوئی فعل حکمت و سبب کی بناء نہیں ہوتا، اور اللہ کی طرف نسبت کے اعتبار سے مامور اور محظوظ میں کوئی فرق نہیں ، اور نہ اس کے نزدیک کوئی فعل محبوب یا کوئی مبغوض ہے۔ بے شک یہ قول فاسد اور کتاب و سنت اور اتفاقِ اسلاف کے خلاف ہے۔ یہ لوگ بے شمار نقائص کے رب تعالیٰ پر ممتنع ہونے کو بیان کرنے سے عاجز رہ جاتے ہیں ۔ بالخصوص جب ان میں سے ایک یہ کہتا ہے: رب تعالیٰ کی نقص سے تنزیہ عقل سے نہیں بلکہ سمع سے معلوم ہوتی ہے۔ [رب سبحانہ و تعالیٰ اور امتناع کذب] پھر جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ: تم لوگوں نے یہ کیوں کہا کہ: رب تعالیٰ پر کذب ممتنع ہے؟ تو کہتے ہیں : کیونکہ یہ نقص ہے اور اس پر نقص محال ہے۔ جب ان سے کہے کہ: تمہارے نزدیک یہ نقص سے تنزیہ اجماع سے معلوم ہوئی ہے، اور یہ بات معلوم ہے کہ رب تعالیٰ کے کذب سے منزہ ہونے پر اجماع منعقد ہے، تو جب اس بات پر اجماع کے ذریعہ دلیل لانا صحیح ٹھہرا تب پھر اس دوراز کار گفتگو کی حاجت نہ رہی۔ دوسرے کلام معنی پر دلالت کرنے والی عبارت میں ہے، جیسا کہ بعض کا قول ہے کہ: یہ بات جائز نہیں کہ اللہ کوئی لا یعنی بات کرے بخلاف حشویہ کے۔ بلاشبہ یہ کسی مسلمان کا قول نہیں ۔ نزاع اس میں ہے کہ کیا وہ کوئی ایسا کلام اتار سکتا ہے۔ جس کا معنی بندے نہ جانتے ہوں ناکہ یہ وہ کلام فی نفسہ لا یعنی ہے۔ پھر فرض کیا کہ اس میں نزاع ہے تو قائل نے اس کے عبث ہونے پر استدلال کیا ہے اور اللہ پر عبث محال ہے۔ یہ شخص اللہ پر ہر فعل کو جائز سمجھتاہے، اور اسے عبث اور لا یعنی فعل سے منزہ قرار نہیں دیتا۔
Flag Counter