Maktaba Wahhabi

65 - 645
ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ تحسین و تقبیح میں عقل کو مجال نہیں ۔ اور اگر ان لوازم کے بارے میں اس بحث کو مکمل نہ کیا گیا تو جو کچھ وہ بیان کر رہے ہیں ؛ ان پر حجت نہ ہوگا؛ چہ جائے کہ وہ ان کے علاوہ تقدیر کے قائلین پر حجت ہو ۔یا پھر حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کو ماننے والوں پر حجت ہو۔ فصل:....اہل سنت کے نزدیک افعالِ اختیاریہ پر رافضی کا کلام اور اس پر ردّ جب تکلیف مالایطاق کی تفسیر بایں طور کی جائے کہ وہ ایسا فعل ہے جس کو انجام دینے پر فاعل کو قدرت حاصل نہ ہو تو اس تفسیر کے مطابق امتناع کا دعویٰ مورد نزاع ہوگا اور اس کی نفی محتاج دلیل ہوگی۔ [اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’ اہل سنت کے نقطۂ نگاہ کے مطابق یہ لازم آتا ہے کہ ہمارے وہ افعال اختیاری جو قصد و ارادہ کے تحت ہم سے صادر ہوتے ہیں ، جیسے دائیں بائیں حرکت کرنا؛ ہاتھ سے پکڑنا اور پاؤں سے چلنا وغیرہ وغیرہ؛وہ ان اضطراری افعال کی مانند ہو کر رہ جائیں جو بلا ارادہ ظہور پذیر ہوتے ہیں ، مثلاً نبض کی حرکت یا کسی اونچی جگہ سے گرنے والا جو حرکت کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ افعال اختیاری و اضطراری کے مابین فرق و امتیاز ضروری ہے۔کیونکہ ہر عاقل اس بات کا حکم لگاتا ہے کہ ہم حرکت ِ اختیاریہ پر تو قادر ہیں لیکن آسمان میں اڑنے جیسی حرکت ِ غیر اختیاریہ پر قادر نہیں ۔ ابو الہذیل علاف کا قول ہے کہ: بشر کا گدھا بشر سے زیادہ عقل مند ہے۔ وہ یوں کہ اگر تو ایسے چھوٹی ندی عبور کرنے کو کہا تو وہ ندی میں داخل ہو کر اسے عبور کرلے گا۔ لیکن اگر تو اسے گہری ندی کے کنارے لائے تو وہ اس میں داخل نہ ہوگا۔ کیونکہ گدھا بھی یہ فرق جانتا ہے کہ میں کس ندی کو عبور کر سکتا ہوں اور کس کو نہیں ۔ لیکن بشر مقدور اور غیر مقدور میں فرق کرنے سے قاصر ہے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]:ہم کہتے ہیں یہ اس شخص کے نزدیک لازم آتا ہے، جس کا قول ہے کہ بندے کو اپنے افعال اختیاری پر قدرت حاصل نہیں ۔یہ کسی معروف امام کا قول نہیں اور تقدیر کے قائلین اہل سنت میں سے کوئی بھی یہ عقیدہ نہیں رکھتا۔ البتہ جہم بن صفوان اور اس کے غالی ہم نوا کہتے ہیں کہ: بندہ ہر گز قدرت سے بہرہ ور نہیں [وہ بندے سے قدرت کو سلب شدہ مانتے ہیں ]۔ وہ کہتے ہیں : بندہ اسی طرح حرکت کرتا ہے، جیسے درخت ہلانے سے ہلنے لگے۔ اسلامی فرقوں میں سے امام اشعری رحمہ اللہ اور ان کے ہم نوا فقہاء امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کے اصحاب ہیں ؛کا نقطۂ نظر ان سے قریب تر ہے، تاہم وہ بندہ کے لیے قدرت محدثہ کا اثبات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فعل بندے کا کسب ہے، مگر اس کے پہلو بہ پہلو وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بندے کی قدرت کو ایجاد مقدور سے کوئی واسطہ نہیں ۔ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ بندے میں جس کسب کا اثبات کرتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے۔ ٭ اسی لیے کہنے والا یہ کہتا ہے: ’’وہ کسب جو اشعری ثابت کرتا ہے وہ غیر معقول ہے، اور جمہور اہلِ اثبات اس بات پر ہیں کہ بندہ اپنے فعل کا فاعلِ حقیقی ہے۔ اسے قدرت اور اختیار حاصل ہے، اور اس کی قدرت مقدور میں مؤثر ہے۔
Flag Counter