Maktaba Wahhabi

477 - 645
ترمذی سے قبل اصطلاح میں حدیث کی صرف دو اقسام تھیں : صحیح اور ضعیف ۔ اورپھر ضعیف کی دو اقسام تھیں : متروک اورغیر متروک۔ تو ائمہ حدیث اس اصطلاح کے اعتبار سے بات کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئے جوصرف امام ترمذی کی اصطلاح کو ہی جانتے تھے۔ تو انہوں نے جب بعض ائمہ کا یہ قول سنا کہ: ’’ضعیف حدیث ہمارے نزدیک قیاس سے زیادہ محبوب ہے۔ تو ان لوگوں نے یہ گمان کر لیا کہ اسے سے مراد وہ احادیث ہیں ؛جنہیں امام ترمذی جیسے لوگ ضعیف کہتے ہیں ۔اوروہ ان لوگوں کے طریقہ کو ترجیح دینے لگ گئے جو خیال کرتے ہیں کہ ہم صحیح احادیث کی اتباع کرنے والے ہیں ۔اس مسئلہ میں وہ ان متناقضین میں سے ہوتا ہے جو کسی چیز کو دوسری ایسی چیز پر ترجیح دیتے ہیں جو خود ترجیح کی زیادہ حق دار ہوتی ہے۔اس سے کسی بھی طرح کم نہیں ہوتی۔ یہی حال مشائخ طریقت کا ہے؛ جب ان میں سے کوئی ایک کسی ایسے شیخ پر طعنہ زنی کرناچاہتا ہے جس کی کوئی دوسرا تعظیم و تکریم کرتا ہو؛ حالانکہ وہ تعظیم کا زیادہ مستحق اور قدح سے زیادہ دورہوتا ہے۔ جیسے وہ لوگ جو ابو یزید اور شبلی وغیرہ کو افضلیت دیتے ہیں ؛ جو ان سے احوال کی حکایات نقل کرتے ہیں ؛وہ جنید اور اور سہل بن عبداللہ تستری جیسوں پر تنقید کرتے ہیں ؛ جو کہ زیادہ استقامت پر اوربلند مقام و مرتبہ والے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ جہالت کی بنا پر کسی کے عظیم انسان ہونے کے صرف دعوی کو اس کی فضیلت کا موجب قرار دیتے ہیں ۔ اور یہ نہیں جانتے کہ اس کا آخری انجام یہ ہے کہ یہ انسان خطاؤں سے مغفورلہ ہو؛ نہ کہ اس کی سعی مشکورانہ ہو۔ جو کوئی بھی عدل اور علم کی راہ پر نہیں چلتا ؛ نتیجہ میں اسے ان تناقضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن انسان کی وہی حالت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿ وَ حَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًاo لِّیُعَذِّبَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَ الْمُشْرِکٰتِ وَ یَتُوْبَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo﴾ (الاحزاب۳۷] ’’ اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بلاشبہ وہ ہمیشہ سے بہت ظالم، بہت جاہل ہے ؛تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے اور (تاکہ) اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول کرے اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ پس انسان ظالم اور جاہل ہی ہے؛ سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ رحم فرمادے۔ [خلافت علی رضی اللہ عنہ اور اختلاف ] [ساتواں اعتراض]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا خلافت کے منصب پر کون فائز ہوا ہے ؟ ‘‘ لوگوں نے جواب دیا: حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ قرار پائے ہیں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا ، عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص لینے کے دعویٰ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئیں ۔ حالانکہ ان کا کوئی قصور نہ تھا۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]:ہم کہتے ہیں : شیعہ مصنف کا یہ قول کہ عائشہ، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت
Flag Counter