Maktaba Wahhabi

293 - 645
اور آپ نے اسے برقرار رکھا ہوتا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا ؛ اورنہ ہی ایسا کرنے کا حکم دیا؛ اور نہ ہی آپ کے عہد مبارک میں صحابہ کرام میں سے کسی ایک نے ایسے کیا۔تو ظاہر ہوا کہ اس فعل میں فضیلت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں اپنے عام لباس کے اوپر اونی جبہ پہنا تھا۔صرف اونی جبہ پہننے میں کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے کہا گیا : کچھ لوگ اونی لباس پہنتے ہیں ‘ اور کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اونی لباس پہنا کرتے تھے ۔ تو آپ نے فرمایا: ہمارے لیے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ دوسروں کے طریقوں سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ ہے۔ علمائے کرام رحمہم اللہ کے مابین اختلاف ہے کہ کیااقامت کی حالت میں بغیر ضرورت کے اونی لباس پہننا مکروہ ہے یا نہیں ؟ جب کہ سفر میں اونی لباس پہننا اچھی بات ہے‘ اس لیے کہ سفر میں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر اگر مان لیا جائے کہ اونی لباس پہننا اطاعت گزاری اور قربت کاکام ہے۔توپھر اس صورت میں اونی لباس کو تواضع کے اظہار کے لیے فاخرانہ لباس کے نیچے چھپا کر پہننے کے بجائے اس کے اوپر پہننا افضل اور بہتر تھا۔ اس لیے کہ اندر میں اونی لباس پہننے میں صرف نفس کے لیے بلا فائدہ تکلیف ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اسی چیز کا حکم دیا ہے جو ان کے لیے زیادہ نفع بخش اور سہل ہو۔انہیں کسی ایسی چیز کا حکم نہیں دیا جس میں ان کے نفس کے لیے عذاب تو ہو مگر کوئی فائدہ نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے : ’’ اللہ تعالیٰ انسان کے اس کے نفس کو عذاب دینے سے بے پرواہ و بے نیاز ہے۔ ‘‘[1] [حضرت ابراہیم اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما ] [اشکال ]: رافضی مضمون نگار رقم طراز ہے: ’’ایک روز سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے آپ کا لخت جگر ابراہیم رضی اللہ عنہ گود میں تھا، اسی اثناء میں حضرت جبریل تشریف لائے اور کہا کہ اﷲتعالیٰ حسین و ابراہیم کو جمع نہیں ہونے دے گا، اس لیے آپ جس کو چاہیں پسند فرمائیں ، آپ نے فرمایا: حسین رضی اللہ عنہ کی موت کی صورت میں علی و فاطمہ اور میں تینوں روئیں گے اور اگر ابراہیم موت سے ہم کنار ہوا تو میں اکیلا آہ و بکا میں مبتلا ہوں گا، اس لیے میں ابراہیم کی موت کو ترجیح دیتا ہوں ۔‘‘ چنانچہ تین دن کے بعد ابراہیم فوت ہوگئے۔اور اس کے بعد جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ تشریف لاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے :’’ مرحباً اور خوش آمدید جس کے بدلے میں نے اپنے بیٹے ابراہیم کا فدیہ پیش کیا ہے ۔‘‘ [جواب]: ہم کہتے ہیں : یہ روایت کسی بھی قابل اعتماد اہل علم نے نقل نہیں کی۔نہ ہی اس کی کوئی معروف سند ہے؛
Flag Counter