Maktaba Wahhabi

571 - 645
ہوں ۔ یہ ایسا جھوٹ ہے جس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منزہ ماننا واجب ہے ۔ ہاں اگر اس قول سے یہ مقصود ہو کہ دوسروں کی نسبت کامل تھے ؛ اور اس میں حصر کمال کے لیے ہو توپھر ایسا کہنا صحیح ہے؛ اس لیے کہ آپ اپنے زمانے میں دوسروں سے بڑھ کر کامل تھے۔ ورنہ یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غیض و غضب کفار کے لیے دوسروں سے بڑھ کر تھا۔ اور آپ سے مسلمانوں کو فائدہ بھی زیادہ پہنچا۔ یہ بات ہر وہ انسان جانتا ہے جو ان دونوں خلفائے کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت سے واقف ہو۔ اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مبارک دور میں تمام مسلمانوں کے لیے ان کے دین و دنیا میں وہ رحمتیں اور برکتیں حاصل ہوئیں جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں حاصل نہ ہوسکیں اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مشرکین ‘ اہل کتاب اور منافقین پر جو غلبہ و رعب حاصل تھا ‘ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں نہ ہوسکا۔یہ بات خاص و عام سبھی لوگ جانتے ہیں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں مؤمنین کو وہ رحمت اور برکت نہ مل سکی جو اس سے پہلے حضرت ابو بکر ‘ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں ملی تھی۔بلکہ آپس میں لڑتے اور ایک دوسرے پر لعنت کرتے رہے۔کفار پر ان کا کوئی غلبہ اوردسترس باقی نہ رہی۔ بلکہ کفار ان پر ہاتھ اٹھانے کے لیے طمع کرنے لگے۔ اور کئی شہر اورعلاقے مسلمانوں سے چھین لیے گئے۔تو پھر کوئی یہ کیسے گمان کرسکتا ہے کہ [کفار کیساتھ جنگ و قتال کے]اس وصفمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ جناب حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما سے بڑھ کراورفائق تھے۔ پھر یہ کہ رافضیوں کے قول میں انتہائی سخت تضاد بیانی پائی جاتی ہے ۔ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے والے اورآپ کے ناصر ہیں ؛ اگر آپ نہ ہوتے تو یہ دین قائم نہ ہوتا۔پھر دوسری طرف آپ کو انتہائی عاجزی ولاچاری اور پستی سے موصوف کرتے ہیں ۔ [اعتراض] : رافضی کہتا ہے : ’’ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن رہے اور آپ کوجھٹلاتے رہے ۔‘‘ [جواب ]: یہ اسلام لانے سے پہلے تھا۔ جیسے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بنی ہاشم اور غیرِ بنی ہاشم اسلام لانے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی رکھتے تھے اور آپ کو جھٹلاتے تھے؛ جیسے ابو سفیان ‘ ربیعہ ؛ حمزہ ؛ اور عقیل وغیرہ ۔ [حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی اجتہادی غلطی پر اعتراض]: [ اعتراض]: نبی کریم رضی اللہ عنہ نے حضرت خالدکو بنی جَذِیمہ کی طرف بھیجا تاکہ ان سے صدقات وصول کریں ۔ خالد نے اس راہ میں خیانت کی؛اور امر رسول کی خلاف ورزی کی اور مسلمانوں کو قتل کرایا۔ یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام میں خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے ‘ آپ نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے یہاں تک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی‘آپ دعا کررہے تھے: ’’یا اﷲ! جو کچھ خالد نے کیا میں اس سے براء ت کااظہار کرتا ہوں ۔‘‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ ان کے نقصان کی تلافی کریں ‘ اور ان کو راضی کر دیں ۔‘‘
Flag Counter