Maktaba Wahhabi

155 - 645
’’ میں تیرے چہرے کی پناہ میں آتا ہوں ، پھر یہ نازل ہوئی: ﴿اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ﴾ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیرے چہرے کی پناہ میں آتا ہوں ۔ پھر یہ نازل ہوئی: ﴿اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا....الی آخر الآیۃ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں باتیں زیادہ ہلکی ہیں ۔‘‘ اور ارشاد ہے: ﴿وَ لَوْشَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعًا﴾ (یونس: ۹۹) ’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو یقیناً جو لوگ زمین میں ہیں سب کے سب اکٹھے ایمان لے آتے۔‘‘ اوراﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً﴾ (ہود: ۱۱۸) ’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو یقیناً سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا۔‘‘ اوراﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ لَوْ شَآ ئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا﴾ (البقرۃ: ۲۵۳) ’’اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے۔‘‘ غرض قرن کریم میں اس کی متعدد مثالیں مذکور ہیں ۔ جب بات یہ ہے کہ جو اس نے چاہا وہ ہوا تو یہ اس پر دلیل ہے کہ وہ اس پر قادر ہے۔ کیونکہ غیر مقدور فعل غیر ممکن ہوا کرتا ہے۔ سو معلوم ہوا کہ جب فعل محض اس کے قادر ہونے کی وجہ سے واقع ہوا ہے تو ہر مقدور واقع ہو گا۔ بلکہ قدرت کے ساتھ ارادہ لازمی ہے۔ مزید برآں قائل کا قول کہ: قدرت ربانی مرجّح کی محتاج ہے، ظاہر ہے کہ مرجح صرف اﷲ کا ارادہ ہی ہوسکتا ہے، یہ امر بھی مسلم ہے کہ ارادہ الٰہی کا صدور غیر سے ممکن نہیں بخلاف بندے کے ارادہ کے کہ وہ غیر سے صادر ہو سکتا ہے، جب ارادہ الٰہی مرجّح ہوا تو فاعل بالاختیار ہوگا، نہ کہ موجب بالذات بلا اختیار۔ اندریں صورت کفر بھی لازم نہیں آئے گا۔ کیا اﷲتعالیٰ موجب بذاتہٖ ہے....؟: سوم:....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ اس سے اﷲتعالیٰ کا موجب بالذات ہونا لازم آتا ہے۔‘‘ ہم پوچھتے ہیں کہ اس سے تمہاری کیا مراد ہے؟ کیا تمہارا مطلب یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ بلا قدرت و ارادہ تاثیر پیدا کر دیتا ہے؟ یا تمہارا مقصد یہ ہے کہ مرجّح یعنی ارادہ مع القدرت کے ساتھ تاثیر کا پیدا ہوجانا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ بصورت اول ہم تلازم کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ، اس لیے کہ ہم فرض کر چکے ہیں کہ اﷲتعالیٰ صاحب قدرت اور ترجیح دینے والا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ یہاں دو چیزیں ہیں : ۱۔قدرت ۲۔ امر [جس کی تفسیر ہم نے ارادہ سے کی ہے]
Flag Counter