Maktaba Wahhabi

49 - 645
اس پر قادر نہیں ، اور نہ اس نے معاصی کو چاہا۔ اس نے امر کی تعظیم، ظلم سے اللہ کی تنزیہ اور اپنے اوپر اللہ کی حجت قائم کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن اس سے دلیل نہیں بن پڑی اور وہ اللہ کی قدرتِ تامہ، مشیئت عامہ اور خلق شاملہ میں اور اس کے عدل و حکمت، امر و نہی اور وعدہ و وعید میں جمع کی صورت پیدا نہیں کر سکا۔ پس اس نے اللہ کے حمد کو تو ٹھہرایا لیکن اس کے حکومتِ کاملہ کو نہ ٹھہرایا، اور جو لوگ اللہ کے لیے قدرت و مشیئت اور خلق کو ثابت کرتے ہیں اور اس کے ذریعے اس کے امر و نہی اور وعدہ و وعید سے معارضہ کرتے ہیں ، وہ یہود و نصاریٰ سے بھی بدتر ہیں ۔ جیسا کہ اس امامی مصنف نے کہا ہے: رہا حق تو وہ جو بھی کہے گا ہم اسے ضرور قبول کریں گے، اور کسی کو بھی حق نہیں کہ وہ بدعت کا رد بدعت سے کرے، اور باطل کا مقابلہ باطل سے کرے۔ اب اگرچہ تقدیر کے منکر بدعتی ہیں ۔ لیکن تقدیر کے ذریعے امر کے خلاف دلیل بنانے والے ان سے بھی بدتر بدعتی ہیں ۔ اگر وہ مجوسیوں کے مشابہ ہیں ، تو یہ مشرکوں اور مکذبین رسول کے مشابہ ہیں جو یہ کہتے تھے: اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا شرک نہ کرتے اور نہ ہم کسی شے کو حرام قرار دیتے۔ دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اواخر میں قدریہ کا یہ جماعت پیدا ہو گئی تھی۔ لیکن تقدیر کی آڑ میں اوامر کو رد کرنے والے تو متقدمین مسلمانوں میں ان کی کوئی قابلِ ذکر جماعت نہیں تھی۔ ان کی کثرت متاخرین میں ہوئی۔ انہوں اس عقیدہ کو حقیقت کا نام دیا۔ پھر اس حقیقت کو شریعت کے معارض ٹھہرایا، اور یہ نہ سمجھا کہ حقیقت دینیہ شرعیہ میں جو قلوب کے احوال کو متضمن ہے۔ جیسے اخلاص، صبر، شکر، توکل اور اللہ کی محبت، اور حقیقت کونیہ قدریہ میں فرق ہے۔ جس پر ایمان تو لایا جاتا ہے لیکن اسے دلیل نہیں بنایا جاتا۔ البتہ مصائب کے وقت اس کی طرف تسلیم و رضا کے ساتھ رجوع کیا جاتا ہے۔ پس عارف مصائب میں تقدیر کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس پر تسلیم و رضا کے ساتھ ایمان لاتے ہوئے گناہوں سے توبہ و استغفار کرتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاصْبِرْ اِِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ﴾ (غافر: ۵۵) ’’پس صبر کر، یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہ کے لیے بخشش مانگ۔‘‘ پس بندہ اس بات کا مامور ہے کہ وہ مصائب پر صبر کرے اور مصائب میں استغفار کرے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام و حضرت آدم علیہ السلام کے درمیان بحث والی حدیث: یہ حدیث بھی اسی باب سے ہے جسے صحیحین وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے، اور ایک جید سند کے ساتھ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’آدم علیہ السلام و موسیٰ علیہ السلام میں جھگڑا ہو گیا۔‘‘ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: ’’مجھے آدم دکھلائیے جنہوں نے اپنی خطا کی وجہ سے ہمیں جنت سے نکلوایا۔ پس موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے آدم! آپ ابو البشر ہیں ۔ اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اور اپنی روح
Flag Counter