Maktaba Wahhabi

572 - 645
[جواب]:اس عبارت کے نقل کرنے میں جہالت اور تحریف کا عنصر موجود ہے جو کہ کسی بھی سیرت کے عالم پر مخفی نہیں ۔ فتح مکہ کے بعد سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو قبیلہ بنی جذیمہ سے لڑنے کے لیے مامور فرمایا ۔ انھوں نے اَسْلَمْنَا (ہم اسلام لائے) کی بجائے صَبَانَا(ہم صابی ہو گئے) کہنا شروع کیا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے اسے اسلام پرمحمول نہ کیا اور ان کو قتل کردیا۔[1] یہ ان کی اجتہادی غلطی تھی۔بڑے بڑے صحابہ کرام جیسے سالم مولی ابی حذیفہ ‘عبداللہ بن عمر اور دیگر نے اس فعل پر انکار کیا تھا‘ اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے ؛اوریہ دعا فرمائی : ’’ اے اﷲ! جو کچھ خالد نے کیا میں اس سے براء ت کااظہار کرتا ہوں ۔‘‘اس لیے کہ آپ کو خوف محسوس ہو رہا تھا کہ کہیں اللہ تعالیٰ آپ سے یہ پوچھ لے کہ ان لوگوں پر زیادتی کیوں کی؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَاِِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ اِِنِّی بَرِیئٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ ﴾ [الشعراء ۲۱۶] ’’پھر اگر وہ آپ کی نافرمانی کریں تو فرما دیں کہ بے شک میں اس سے بری ہوں جو تم کرتے ہو۔‘‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال دے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا اور انھوں نے نصف دیت ادا کردی۔ جو مالی نقصان ہوا تھا اس کی تلافی کی۔ یہاں تک کہ کتا جس برتن سے پانی پیتا ہے اس کی قیمت بھی ادا کی[2] اور پھر ان کا باقی مال بھی انہیں واپس کردیاتاکہ ان کا کچھ مال باقی نہ رہ جائے۔ مگر اس کے باوجود حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو امارت سے معزول نہیں کیا۔ بلکہ آپ کو برابر امیر مقرر کیا جاتا رہا اور لشکروں کی قیادت آپ کے سپرد کی جاتی رہی۔ اس لیے کہ جس امیر سے کوئی غلطی یا گناہ ہوجائے تو اسے رجوع کرنے کا حکم دیا جاتا ؛ اور اسے اس کی ولایت پر باقی رکھا جاتا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی نہیں کی تھی، بلکہ وہ آپ کے حد درجہ اطاعت کیش تھے۔ البتہ آپ فقہ فی الدین میں دوسرے صحابہ کی منزلت پر نہ تھے؛اس معاملہ کا حکم آپ پر مخفی تھا۔اس وجہ سے اس موقع پر ان سے اجتہادی غلطی صادر ہوئی۔ ٭ کسی نے یہ بھی کہا ہیکہ: حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ اور بنو جذیمہ کے مابین عہد جاہلیت کی رنجش تھی؛ جس کی وجہ سے انہوں نے ان کو قتل کیا ؛ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا ایلچی بناکر بھیجا۔ [حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بنو جذیمہ روانگی :] شیعہ کا قول کہ : ’’پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوحکم دیاکہ ان لوگوں کو راضی کردیں ۔‘‘ جواب :یہ کلام جہالت پر مبنی ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس لیے بھیجا تھا کہ ان کے ساتھ انصاف کریں ‘ اور ان کے نقصان کی تلافی کریں ۔ معاملہ صرف راضی کرنے کا ہی نہیں تھا۔ شیعہ کا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ قول کہ : ’’انہوں نے خیانت کی ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت
Flag Counter