Maktaba Wahhabi

290 - 645
پانچویں وجہ:....ان دونوں کے متعلق رب ہونے کا دعوی باطل ہے۔ اس کے مقابلہ میں بھی ایک باطل دعوی پیش کیا جاتا ہے۔ یہ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کا دعوی ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق خوارج کا دعوی ہے۔خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر کہتے ہیں ۔اگر قوت ِ شبہ کی بنا پر آپ کے متعلق یہ دعوی کرنا جائز ہوسکتا ہے کہ آپ رب ہیں تو پھر قوت شبہ کی بناپر خوارج کا دعوی بھی صحیح ہوسکتا ہے۔اور یہ کہنا بھی جائز ہوسکتا ہے کہ آپ سے کچھ ایسی خطائیں ہوگئی تھیں جن کی بنا پر خوارج نے آپ کوکافر کہا۔ اور خوارج ان لوگوں سے بڑھ کر دین دار اور عالم تھے جنہوں نے آپ کے رب ہونے کا دعوی کیا تھا۔اگر ایسے دعووں کو دلیل بنانا اور انہیں منقبت شمار کرنا جائز ہے؛ تو پھر آپ سے بغض رکھنے والوں اور خوارج کا دعوی بھی اس سے کئی درجہ زیادہ قوی ہے ۔ اس بارے میں رافضی غالی خوارج کا مقابلہ کہاں کرسکتے ہیں ؟ خوارج لوگوں میں سب سے زیادہ نمازی ؛ روزہ دار اورقرآن کی تلاوت کرنے والے تھے۔ان کے اپنے لشکر اور فوجیں تھیں ۔وہ ظاہری اور باطنی طور پر دین اسلام کے دعویدار تھے۔ جب کہ ان کے مقابلہ میں غالی رافضی یا تو لوگوں میں سب سے بڑے جاہل ہوا کرتے تھے یا پھر سب سے بڑے کافر ۔ امامیہ غالیہ کے کافر ہونے پر تمام لوگوں کا اجماع ہے۔ جب کہ خوارج کو وہی لوگ کافر کہتے ہیں جو امامیہ کو بھی کافر کہتے ہیں ۔ بلکہ خوارج امامیہ سے بہت بہتر ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کو کافر نہ کہتے تھے۔ اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک پر قدرت پاکر اسے قتل کرنے کا حکم دیتے ۔جس طرح غالیہ کو آگ میں جلانے کا حکم دیا تھا۔بلکہ انہیں اس وقت تک قتل نہیں کیا گیا جب تک انہوں نے عبد اللہ بن خباب کو قتل نہ کیا اور لوگوں پر شب ِ خون نہ مارا۔ صحابہ کرام ‘ علماء امت اور دیگر کے اجماع سے ثابت ہے کہ خوارج غالیہ شیعہ سے بہت بہتر اور افضل ہیں ۔ پھر اس کے باوجود اگر شیعہ کے لیے جائز ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق غالیہ کے دعوی الوہیت کو آپ کی فضیلت میں حجت تسلیم کریں تو پھر شیعان عثمان رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگوں کے لیے جائز ہے کہ وہ خوارج کے دعوی کفر کو بھی دلیل بنالیں ۔پس معلوم ہوا کہ ایسے دلائل سے صرف جاہل لوگ ہی حجتیں پکڑتے ہیں ۔پھر یہی دلیل ان پر حجت بن جاتی ہے ‘ ان کے حق میں نہیں رہتی۔ اسی لیے لوگ جانتے تھے کہ رافضی نواصب سے بڑے جاہل اور جھوٹے ہوا کرتے ہیں ۔ [حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما اور جہاد فی سبیل اللہ]: [اشکال ]: آپ کے دوبیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے؛ جو کہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہوں گے۔ اور وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح اور واضح حکم کے مطابق امام تھے۔‘‘ [جواب] : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا: ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اورعنقریب اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘[1]
Flag Counter