Maktaba Wahhabi

614 - 645
[اطاعت اور ولاء و براء کا معیار] جب یہ بات واضح ہوگئی ؛ تو سمجھ لینا چاہیے کہ یزید کے متعلق وہی قول ہونا چاہیے جو اس کے مشابہ دیگر خلفاء اور ملوک سے متعلق ہے۔جو کوئی اطاعت الٰہی کے کاموں میں موافقت رکھتا ہو؛ جیسے نماز؛ حج؛ اور جہاد؛ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اقامت حدود ؛ وغیرہ ؛ تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے کاموں پر ماجور ہوگا۔نیکوکار اہل ایمان ایسے ہی کرتے رہے ہیں ؛ جیسے حضرت عبداللہ بن عمر ؛ اور ان کے امثال۔ اور جو کوئی ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے ؛ اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کرے؛ تووہ گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ان کا مدد گار ہو گا۔ اور عذاب اورمذمت کا مستحق ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یزید کے اور اس جیسے دیگر کے ساتھ جہاد کرتے رہے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یزید نے اپنے والد محترم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں غزوہ لڑا تھا۔ اس کے ساتھ اس لشکر میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی تھے۔یہ پہلا لشکر تھا جس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا تھا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو پہلا لشکر قسطنطنیہ پر حملہ کرے گا؛ وہ بخشا ہوا ہے ۔‘‘[تخریج آگے آئے گی] عمومی طور پر خلفاء اور ملوک کے دور میں فتنے واقع ہوئے ہیں ۔جیسا کہ یزید بن معاویہ کے دور میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ قتل ہوئے۔ حرہ کا واقعہ پیش آیا۔ مکہ میں ابن زبیر کا محاصرہ کیا گیا۔ اور مروان بن حکم کے زمانہ میں مرج راھط کا فتنہ اس کے اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے مابین پیش آیا۔ اور عبدالملک کے زمانہ میں حضرت مصعب بن زبیر اور ان کے بھائی عبداللہ بن زبیر کے واقعات پیش آئے۔ انہیں مکہ میں محصور کیا گیا تھا۔اورہشام کے زمانہ میں حضرت زید بن علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ پیش آیا۔ اور مروان بھی محمد کے زمانہ میں ابو مسلم کے قتل کا فتنہ پیش آیا ۔ حتی کہ ان کے ہاتھوں سے زمام حکومت نکل کر بنو عباس کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ پھر منصور کے زمانہ میں محمد بن عبد اللہ بن حسن بن الحسین کا واقعہ مدینہ میں پیش آیا۔ اور بصرہ میں ان کے بھائی ابراہیم کا واقعہ ۔ یہ اتنے زیادہ فتنے ہیں جن کی تفصیل طوالت اختیار کر جائے گی۔ فتنے ہر زمانہ میں اس عہد کے لوگوں کے حساب سے پیش آتے رہے ہیں ۔ پہلا فتنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا فتنہ تھا؛ جو کہ بہت ہی بڑا فتنہ تھا۔ یہی وجہ ہے امام احمد رحمہ اللہ نے مسند میں ایک مرفوع حدیث روایت کی ہے؛ فرمایا: ’’ تین فتنے ایسے ہوں گے جو ان سے بچ گیا؛ تو وہ نجات پا گیا۔ میری موت؛ مظلوم خلیفہ کا قتل ناحق ؛ اور دجال کا فتنہ ۔‘‘[مسند أحمد: ۳؍۱۰۵] یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے فتنہ کے بارے میں پوچھا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: ’’بیشک اس کے اور آپ کے مابین ایک بند دروازہ ہے ۔تو آپ نے پھر پوچھا: کیا اس دروازہ کو کھولا جائے گایا توڑا جائے گا؟ تو انہوں نے کہا: نہیں ؛ توڑا جائے گا۔‘‘ تو آپ نے فرمایا: ’’ اگر اسے کھولا جاتا تو دوبارہ بند کیا جاسکتا تھا۔‘‘
Flag Counter