Maktaba Wahhabi

68 - 645
کے تابع ہے۔ اور یہی واضح طور پر اہلِ سنت کا عقیدہ ہے۔ قرآن کریم کے متعدد مقامات میں بتایا گیا ہے کہ بندے مختلف کام انجام دیتے، ایمان لاتے، کفر کرتے، سچ بولتے اور دروغ گوئی کے مرتکب ہوتے ہیں ، نیز یہ کہ وہ قوت و استطاعت سے بہرہ ور ہیں ۔ جمہور آئمہ اہلِ سنت کا قول ہے کہ اللہ ان سب کا خالق ہے، اور ان کے نزدیک خلق یہ مخلوق نہیں ہے۔ لہٰذا وہ اس بات میں کہ بندوں کے افعال رب کی مخلوق اور مفعول ہیں ، اور اس بات میں فرق کرتے ہیں کہ: بندے کا وہ نفسِ فعل جو وہ کرتا ہے اور وہ فعل کا مصدر ہے جو فعل بجا لاتا ہے کہ وہ مصدر کے معنی میں بندے کا فعل ہے۔ ناکہ اس اعتبار سے رب کا فعل ہے۔ بلکہ وہ رب کے حق میں مفعول ہے، اور رب تعالیٰ کو اس کے مفعولات کے ساتھ متصف نہیں کیا جاتا۔ شیعہ مصنف نے جن اعتراضات کا ذکر کیا ہے، یہ اس شخص پر وارد ہوتے ہیں ، جو رب کے فعل اور مفعول کے مابین فرق و امتیاز نہیں کرتا ؛یا افعال العباد کو افعال الٰہی قرار دیتا ہے، جیسا کہ جہم بن صفوان اور اس کے ہم نواؤں کاعقیدہ ہے؛ اور اشعری اور اس پیروکار آئمہ کہتے ہیں ۔ اسی لیے یہ مقام اس بحث کے لیے نا کافی اور تنگ دامن ہے۔ اس کی تفصیل دوسرے موقع پر ہو چکی ہے۔ اسی طرح یہ قباحت و شناعت اسے بھی لازم آتی ہے جو کہتا ہے کہ مخلوقات میں قوی و طبائع سرے سے موجود ہی نہیں ، اور کہتا ہے کہ اللہ ان کے ہوتے ہوئے فعل کرتا ہے ناکہ ان کے ذریعے۔ اس شخص کو یہ لازم آتا ہے کہ قادر اور عاجز میں کوئی فرق نہ ہو چاہے وہ قدرت کو ثابت بھی کرتا ہو، اور کہے کہ قدرت کسب سے ملی ہوئی ہے۔ اس کو یہ جواب دیا جائے گا کہ تو جس کسب کو ثابت کیا اور جس فعل کی نفی کی ہے، ان دونوں میں کوئی اور قادر اور عاجز میں کوئی معقول فرق ثابت نہیں کیا۔ جب کہ افتران محض کو قدرت کے ساتھ اختصاص حصال نہ ہو۔ کیونکہ بندے کا فعل اس کی حیات، علم اور ارادۂ وغیرہ کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔ تو جب قدرت کو صرف افتران کی تاثیر ہی حاصل ہوگی تو پھر قدرت اور غیر قدرت میں کوئی فرق نہ رہا۔ اسی طرح جو یہ کہتا ہے کہ قدرت صفتِ فعل میں موثر ہے ناکہ اصلِ فعل میں ۔ جیسا کہ قاضی ابو بکر اور ان کے ہم نواؤں کا قول ہے۔ کیونکہ اگر وہ رب تعالیٰ کے پیدا کرنے کے بغیر تاثیر کو ثابت کرتا ہے تو اسے لازم آئے گا کہ بعض حوادث کا خالق رب تعالیٰ نہیں ۔ چاہے اس نے ان حوادث کو رب تعالیٰ کی تخلیق پر معلق بھی کیا ہو۔ تب بھی اصل اور صفت میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ عقیدہ اہل سنت اور مسئلہ متنازعہ پر قرآنی آیات سے استشہاد رہے جمہور آئمہ اہلِ سنت تو ان کا وہ قول ہے جس پر عقل و شرع دونوں سے ان کی شہادت ملتی ہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ سُقْنَاہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہٖ الْمَآئَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ﴾ (الاعراف: ۵۷)
Flag Counter