Maktaba Wahhabi

274 - 645
فصل:....بارہ ائمہ کے خصائص پر رافضی کاکلام جھوٹا رافضی دعوی اور مذہب کی ظاہری چمک [اشکالات] شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’شیعہ مذہب کی صداقت کی چوتھی دلیل یہ ہے کہ:’’ انہوں نے یہ مذہب ان ائمہ معصومین سے اخذ کیا ہے جو علم و فضل ؛ زہد و ورع میں شہرت رکھتے تھے۔اور ہر وقت دعا و عبادت اور تلاوت قرآن میں مشغول رہتے۔ ان کا یہی حال بچپن سے لیکر آخری عمر تک رہا۔اور ان میں ایسے بھی تھے جو لوگوں کو علوم سکھانے میں مشغول رہتے۔ان ہی کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی:﴿ ھل أتی﴾ [الإنسان۱]۔ اور آیت ِطہارت؛اور ان کے لیے وجوب محبت کی آیت؛اور آیت مباہلہ وغیرہ اسی بارے میں نازل ہوئیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کثرت عبادت کا یہ عالم تھا کہ آپ جنگوں میں مشغول رہنے کے باوجود شب و روز میں ایک ہزار رکعات نوافل پڑھا کرتے تھے۔‘‘ ان میں سب سے پہلے امام حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں ۔آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب مخلوق میں سے افضل ترین انسان تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات قرار دیا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ﴾ [آل عمران ۶۱] ’’اور ہمارے نفسوں کو اورتمہارے نفسوں کو ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اپنا بھائی بنایا ؛ اور اپنی بیٹی کو آپ کی زوجیت میں دیا۔ آپ کی فضیلت کسی پر مخفی نہیں ہے۔ آپ سے بہت سارے معجزات ظاہر ہوئے ۔یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے آپ کے رب ہونے کا دعوی کیا ؛ پھر انہیں قتل کردیا گیا۔ پھر یہی بات ان کی جگہ کچھ دوسرے لوگ کہنے لگے؛ جیسے کہ غالیہ اور نصیریہ وغیرہ۔آپ کے دوبیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے؛ جو کہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ اور وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح اور واضح حکم کے مطابق امام تھے۔یہ دونوں حضرات اپنے دور کے سب سے بڑے زاہد اور بڑے عالم تھے۔ انہوں نے اللہ کی راہ میں ایسے جہاد کیا جیسے جہاد کرنے کا حق ہے ؛ یہاں تک کہ دونوں اللہ کی راہ میں شہید کردیے گئے۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے فاخرانہ لباس کے نیچے اون کا لباس اس طرح پہنا کرتے تھے کہ اس کا کسی کو پتہ ہی نہ چلتا تھا۔ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی دائیں ران پر بٹھایااو رابراہیم کو اپنی بائیں ران پر بٹھایا؛ تو جبریل امین نازل ہوئے اور فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ ان دونوں کو آپ کے لیے جمع نہیں کرے گا۔آپ ان دونوں میں سے جس کو چاہیں اختیار کریں لیں ۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اگر حسین مر گیا تو میں علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہم تینوں روئیں گے۔اور اگر ابراہیم مر گیا تو اس پر مجھے ہی رونا پڑے گا ؛ پس میں ابراہیم کی موت کو اختیار کرتا ہوں ۔ اس واقعہ کے تین دن بعد ابراہیم کا انتقال ہوگیا۔ اور اس کے بعد جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ تشریف لاتے تو آپ فرماتے : ’’ خوش آمدید و مرحبا اے بیٹے !
Flag Counter