Maktaba Wahhabi

490 - 645
لوگ سب سے بڑے شریر ہوتے ۔ حالانکہ یہ بات ظاہر البطلان ہے۔اور اہل اسلام کے لیے اس عقیدہ و نظریہ کا فساد و خرابی معلوم شدہ چیز ہے۔ [شیعہ مذہب کی بنیاد]: اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ شیعہ مذہب کا بانی ملحد و زندیق اور دین اسلام و اہل اسلام کا دشمن تھا۔ اور وہ تاویل کرنے والے مبتدعین مثلاً خوارج و قدریہ کی طرح نہ تھا۔ بعد کے دور میں اہل ایمان میں شیعہ کے اقوال اس لیے رائج ہو گئے کہ وہ جہالت کی بنا پر کھرے اور کھوٹے میں امتیاز قائم نہ کر سکے۔ یہ بڑا اہم سوال ہے کہ وہ کون سے محرکات تھے جن کے تحت صحابہ رضی اللہ عنہم نے جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ساتھ دیا؟ مگر جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اپنا حق طلب کرنے کے لیے آئیں تو کوئی بھی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف ان کی مدد کے لیے تیار نہ ہوا؟ اگر صحابہ رضی اللہ عنہم دنیوی مال و متاع اور سیاسی اقتدار کے بھوکے تھے تو انھیں بنو ہاشم(حضرت علی رضی اللہ عنہ ) کا ساتھ دینا چاہئے تھا جو عرب بھر میں ممتاز تھے۔ اسی بنا پر صفوان بن اُمیہ جمحی نے غزوہ حنین کے موقع پرجب لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تھے؛اور کسی نے کہا: ان کو اب سمندر ہی قبول کرے گا۔اور کوئی کہنے لگا : سارا جادو ٹوٹ گیا؛ [اس وقت صفوان نے] کہا تھا: ’ اﷲ کی قسم! اگر کوئی قریشی مجھے اپنا غلام بنا لے تو یہ بات مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ ثقیف کا کوئی آدمی میرا آقا ہو ۔‘‘ [سیرۃ ابن ہشام ۳؍۸۶] جو لوگ فتح مکہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، صفوان ان میں سرکردہ آدمی تھا وہ سابقہ مقولہ کی طرح یہ بات کہنے کا حق رکھتا تھا۔ اگر بنی عبد مناف کا کوئی شخص مجھے اپنا غلام بنا لے تو یہ بات مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ بنی تیم کا کوئی آدمی میرا آقا ہو۔‘‘اگر اسی بنا پر کسی کو تقدیم حاصل ہوتی تو باتفاق العقلاء بنی ہاشم کو بنی تیم پر تقدیم و سبقت حاصل تھی۔[تو اس صورت میں ] اگر علی رضی اللہ عنہ کو آگے نہ کرتے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہما کو خلیفہ بنالیتے۔ یہ سوال بھی بے جا نہیں کہ اگر صحابہ دنیوی اقتدار کے حریص تھے تو اس مقصد کے لیے عباس رضی اللہ عنہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نسبت موزوں تر تھے، پھر ان کو خلیفہ کیوں نہ بنا لیا ؟ [فرض کر لیجیے کہ ] اگر یہ لوگ ہاشمی وصی پر ظلم کرنے پر تل ہی گئے تھے ؛ او رانہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس لیے مقدم نہیں کیا وہ اس کو ناپسند کرتے تھے ؛ توپھر بھی جن سے مقصود خلافت حاصل ہوسکتا تھا دوسرے ہاشمی تھے؛ یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ ؛ انہیں مقدم کیا ہوتا ‘ اور خلیفہ بنایا ہوتا۔ آپ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نسبت اس کام کے لیے زیادہ موزوں ہوسکتے تھے ؛ جو لوگوں کی ایسے مدد نہیں کرسکے جیسے عباس رضی اللہ عنہ کرتے۔اور انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر اس کڑوے حق پر بھی لگاتے ۔ اگر اس کڑوے حق کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نا پسند کیا جانا تھا ؛ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ ناپسندیدہ لگتا۔ اور اگر اس سے مقصود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اس میٹھی اور شیرین دنیا کا حصول تھا ؛ تو اس کے مواقع حضرت علی اورحضرت
Flag Counter