Maktaba Wahhabi

121 - 645
اور اس باب میں ابلیس اور دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہیں ۔ فصل:....وعد و وعید پرعدم اعتماد؟ رافضی کا قول کہ: ’’اللہ کے وعدہ اور وعید میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔‘‘ منکر تقدیر شیعہ انتہائی طوالت سے کام لیتے ہوئے لکھتا ہے:’’اہل سنت کے نقطۂ نظر کے مطابق اﷲ تعالیٰ کے وعدہ اور وعید پر سے اعتماد اٹھ جائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک اﷲ تعالیٰ کی جانب دروغ گوئی کی نسبت درست ہے، بنا بریں اس کی دی ہوئی خبریں بھی جھوٹ ہوں گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انبیاء کی بعثت عبث ہوگی اور کسی فائدہ کی موجب نہیں ہوگی۔بلکہ یہ بھی جائز ٹھہرا کہ وہ کذابوں کو بھی بھیج سکتا ہے پس سچے اور جھوٹے نبیوں میں فرق کرنے کی کوئی سبیل ہمارے ہاتھوں میں باقی نہ رہی۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]۔ [جواب]: اس بات کا جواب کئی طرح سے دیا جا سکتا ہے۔ اوّل :....بارہا یہ بات گزر چکی ہے کہ جس بات سے وہ خود متصف ہے اس میں اور اس میں فرق ہے جس کو اس نے اپنے غیر کی صفت بنا کر پیدا کیا ہے اور یہ کہ مخلوق کی اپنے خالق کی طرف نسبت میں اور صفت کی اپنے موصوف کی طرف نسبت میں فرق ہے۔ خالق و فاعل کے مابین فرق و امتیاز سب عقلاء کے نزدیک مسلم ہے۔ مثلاً اﷲ تعالیٰ جب کسی چیز میں حرکت پیدا کریگا تو ذات باری کو متحرک قرار نہیں دے سکیں گے، جب وہ بادل میں گرج پیدا کرتا ہے، تو گرج کو اس کی آواز نہیں کہہ سکتے۔ بعینہ اسی طرح جب وہ حیوانات و نباتات میں مختلف قسم کے رنگ پیدا کرتا ہے، تو اسے ان رنگوں سے موصوف قرار نہیں دے سکتے۔ جب وہ کسی چیز میں علم اور حیات و قدرت کی صفات پیدا کرتا ہے تو یہ اس کی صفات نہیں کہلا سکتیں ۔ علی ہذا القیاس جب وہ کسی چیز میں اندھا پن اور بہرہ پن پیدا کرتا ہے، تو یہ اس کی صفت نہیں کہلاتی جب اﷲ تعالیٰ کسی میں روزہ، طواف اور خشوع و خضوع پید اکرتا ہے تو اسے روزہ دار، طواف کنندہ اور خاشع کے ناموں سے یاد نہیں کیا جا سکتا، باقی رہی قرآن حکیم کی یہ آیت کریمہ:﴿ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی﴾ (الانفال:۱۷) ’’جب آپ نے تیر پھینکا تو وہ آپ نے نہیں بلکہ اﷲ نے پھینکا ہے۔‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بلاشبہ وہ تیر آپ نے پھینکا ہے، مگر اسے نشانہ پر لگانا آپ کا فعل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی عنایت ہے۔ آیت کا حاصل یہ ہے کہ تیر اندازی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے اور اسے دشمنوں تک پہنچانا اﷲ کا کام۔پس تیراندازی آپ کے دست مبارک کی طرف منسوب ہوئی اور اس کی ہدف تک رسائی اللہ تعالیٰ کی طرف ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ تیر انداز اور تیر اندازی دونوں اﷲ کے پیدا کردہ ہیں ۔ لہٰذا حقیقی تیر انداز اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے یہ خیال قطعی طور پر بے بنیاد ہے۔ کیونکہ اگر یہ بات درست ہوتی کیونکہ وہ تیر اندازی کا خالق ہے تو یہ بات دیگر جملہ افعال میں بھی جاری ہو گی۔ تب پھر لوگ یہ بھی کہہ سکتے کہ میرا چلنا دراصل اللہ کا چلنا ہے اور میرا تھپڑا مارنا
Flag Counter