Maktaba Wahhabi

643 - 645
اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان کا ناحق خون بہانے سے منع کیا ہے؛ جب کسی کو حق کے ساتھ قتل کیا گیا ہو تو پھر اس کے قتل کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کا غضب کیونکر سخت ہوسکتا ہے؟ خواہ قتل ہونے والا ہاشمی ہو یا غیر ہاشمی ۔ اگر کسی کو ناحق قتل کیا جائے ؛ تو پھر جو کوئی بھی کسی مؤمن کو جان بوجھ قتل کردے ؛ تو بدلے میں اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہوگا؛ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا؛ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا اور لعنت ہوئی ؛ اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔خون کی حفاظت کرنے والا اسے مباح سمجھنے والا اس میں ہاشمی اور غیر ہاشمی برابر ہیں ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسا کلام منسوب کرنے والا یا تو منافق ہوسکتا ہے جو آپ کی ذات پر قدح کرنا چاہتا ہو یا پھر کوئی جاہل ہوسکتا ہے جو اس عدل کو نہ جانتا ہو جو عدل دیکر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث کیا تھا۔ [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے اہل بیت میں تکلیف دینا] ایسے ہی رافضی کا قول : ’’ جس نے مجھے میرے اہل بیت میں تکلیف دی ۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے اہل بیت یا حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم یا آپ کی سنت میں سے کسی کی توہین کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینا کبیرہ گناہ ہے۔ فصل:....رافضی کا اہل سنت پر الزام [امامیہ اور اللہ تعالیٰ ؛ ملائکہ ؛ انبیائے کرام علیہم السلام اور ائمہ کی تنزیہ ] [خوش فہمی اور دھوکا] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’صاحب عقل و خرد کو غور کرنا چاہئے کہ فریقین (شیعہ و اہل سنت) میں سے کون امن کا زیادہ حق دار ہے؟ وہ فریق جو اﷲ تعالیٰ،ملائکہ،انبیاء اور ائمہ کو منزّہ قرار دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت کو مسائل ردیہ سے پاک سمجھتا ہے یا وہ فریق جو اس کے برعکس ہے ؟ علاوہ ازیں اہل سنت ائمہ اثنا عشرہ پر درود و سلام نہ بھیج کر اپنی نمازوں کو برباد کرتے ہیں ‘ حالانکہ وہ دوسرے ائمہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں ۔یا جو ان کے بر خلاف ذکر کرتے اور عقیدہ رکھتے ہیں ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب] :ہم کہتے ہیں کہ: شیعہ مصنف جس کو تنزیہ تصور کرتا ہے وہ ہمارے نزدیک اﷲ و رسول کی توہین و تنقیص اورتعطیل ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہ جہمیہ کاعقیدہ ہے جو صفات کی نفی کرتے ہیں جس سے یہ لازم آتا ہے کہ اﷲتعالیٰ جملہ صفات کمال سے عاری اور جمادات و معدومات کی مانند ہو۔ جب شیعہ کہتے ہیں کہ: اﷲتعالیٰ میں حیات و علم و قدرت نیز کلام و مشیت اور حب وبغض و رضا و ناراضگی میں سے کوئی صفت بھی پائی نہیں جاتی وہ نہ بذات خود کوئی فعل انجام نہیں دیتا اور نہ کسی تصرف پر قادر ہے؛ تو گویا وہ اسے جمادات اور ناقصات کے مشابہ قرار دیتے ہیں جو اس کی تنقیص و تعطیل ہے۔ باری تعالیٰ کی تنزیہ کا مطلب یہ ہے کہ اسے ان نقائص سے منزہ قرار دیا جائے جو کمال کے منافی ہیں ۔ مثلاً اسے موت، نیند، غفلت عجز و جہل اور حاجت مندی سے پاک سمجھاجائے؛ جیسا کہ قرآن مجید میں اس نے اپنی ذات کو
Flag Counter