Maktaba Wahhabi

298 - 645
[جواب]:اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ جعفر بن محمد رحمہ اللہ نے وہ مسائل اختراع کیے جو متقدمین کو معلوم نہ تھے یا یہ کہ اس کے پیش رواپنے واجبات کی ادائیگی اور علم کی نشرو اشاعت میں کوتاہی کا ارتکاب کرتے رہتے تھے۔ کیا اس میں کوئی مسلمان شک کرسکتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام علوم و معارف اور امورِ عقائد و ایمان بوجہ اکمل سیکھے تھے ؛اور پھر انہیں آگے مسلمانوں تک بھی پہنچایا تھا۔ اس دعوی کامقتضی آپ کی تعریف نہیں ‘بلکہ آپ کی شان میں قدح کرنا ہے۔ بلکہ امام جعفر الصادق پر ان کے متقدمین ائمہ کی نسبت بہت زیادہ جھوٹ بولا گیاہے۔ یہ تمام تر آفات جھوٹ گھڑنے والوں کی طرف سے پیش آئی ہیں ‘آپ اس سے بری ہیں ۔حقیقت میں حضرت جعفر رحمہ اللہ سے متعلق جھوٹ کا طومار باندھنے والے اس آفت کے ذمہ دار ہیں ۔ انہوں نے جھوٹ موٹ کتاب البطاقہ، کتاب الجفر، کتاب الہفت،کلام فی النجوم ؛ مقدمہ رعود و بروق؛ اختلاج الاعضاء اور دیگر کتب کو ان کی طرف منسوب کر دیا تھا۔ ایسے ہی [شیعہ مفسر ] ابو عبد الرحمن[السلمی] نے اپنی تفسیر ’’ حقائق التفسیر ‘‘میں آپ پر وہ جھوٹ باندھے جن سے آپ اللہ کے نزدیک بری ہیں ۔یہاں تک کہ جو بھی انسان اپنے جھو ٹ کی دکان چمکانا چاہتا ہے ‘ وہ اسے جعفر الصادق کی طرف منسوب کردیتا ہے ۔ دروغ گوئی کی حدیہ ہے کہ’’ رسائل اخوان الصفا‘‘ بعض لوگوں کے نزدیک امام جعفر سے ماخوذ ہیں ۔ اس کا جھوٹ ہونا ہر ایک پر عیاں ہے۔اس لیے کہ امام جعفر رحمہ اللہ کا انتقال ۱۳۸ ہجری میں ہوا۔ حالانکہ یہ رسائل ان کے دو صد سال بعد اس زمانہ میں تصنیف کیے گئے تھے جب اسماعیلیہ باطنیہ نے مصر کی حکومت پر قبضہ جمایا اور قاہرہ میں المعزیہ نام سے شہر قائم کیا۔یہ سن ۳۵۰ ہجری کے بعد کی بات ہے۔اس وقت میں اس مذہب کے زور پکڑ جانے کی وجہ سے یہ رسائل تصنیف کیے گئے۔ جن کے ظاہر میں شیعیت ٹپکتی ہے اور اندر خالص کفر و شرک بھرا ہواہے۔ اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ شریعت کے پیرو ہیں اور شریعت کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن،باطن شریعت اس کے ظاہر سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ دراصل یہ لوگ درپردہ فلسفہ زدہ لوگ تھے اور اسی اساس پر انہوں نے وہ رسائل تصنیف کیے تھے۔ نصاریٰ نے ملک شام کے جس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اس کا ذکر ان رسائل میں ملتا ہے۔ان میں سے پہلا رسالہ چوتھی صدی ہجری کے شروع میں لکھاگیا تھا۔ فصل:....موسیٰ بن جعفر [1] ٭ [شیعہ مصنف نے کہا ہے ]: جعفر کے بعد موسی بن جعفر کا نام آتا ہے۔ ان کے متعلق محدث ابو حاتم الرازی لکھتا ہے: ’’ آپ ثقہ اور صدوق ہیں اور مسلمان ائمہ میں سے ایک امام ہیں ۔‘‘[الجرح والتعدیل(۸؍۱۳۹)]
Flag Counter