Maktaba Wahhabi

549 - 645
تأویل کی بنا پر امت کے خون ؛ أموال اور اعراض میں بعض امور کا وقوع : یہ جان لینا ضروری ہے کہ بلا شک و شبہ امت میں بعض امورخون ؛عزت و آبرو اور اموال میں تأویل کی بنا پر واقع ہوتے ہیں ۔ جیسے جنگ ؛ لعن وطعن اور تکفیر ۔ صحیحین میں ثابت ہے کہ حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قبیلہ حرقات کی طرف بھیجا جو قبیلہ جہینہ میں سے ہے۔ ہم صبح صبح وہاں پہنچ گئے اور ان کو شکست دے دی۔ میں نے اور ایک انصاری نے مل کر اس قبیلہ کے آدمی کو گھیر لیا جب وہ ہمارے حملہ کی زد میں آگیا تو اس نے کہا لا اِلہ اِلا اللہ۔انصاری تو یہ سن کر علیحدہ ہوگیا؛ لیکن میں نے اسے نیزہ مار کر قتل کر دیا۔ جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اس کی خبر پہنچ چکی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’اے اسامہ!کیا لا اِلہ اِلا اللہ کہنے کے بعد بھی تم نے اسے قتل کر ڈالا؟ میں نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول! اس نے اپنی جان بچانے کے لئے ایسا کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہی فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ مجھے باربار آرزو ہونے لگی کہ کاش میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔‘‘[سبق تخریجہ ] صحیحین میں حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے؛ فرماتے ہیں : ’’ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ: ’’یا رسول اللہ! مجھے بتائیے کہ اگر میں کسی کافر سے بھڑ جاؤں اور باہم خوب مقابلہ ہو اور وہ میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ دے اور پھر درخت کی پناہ لے اور کہے میں اللہ پر ایمان لایا ہوں اور اسلام کو قبول کرتا ہوں ؛ تو اب اس اقرار کے بعد میں اس کو مار دوں یا نہیں ؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ اسے مت مار۔‘‘ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے میرا ہاتھ کاٹ دیا ہے اور اس کے بعد کلمہ پڑھا ہے۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ کچھ بھی ہو اسے مت قتل کرو؛ ورنہ اس کو وہ درجہ حاصل ہوگا جو تم کو اس کے قتل کرنے سے پہلے حاصل تھا اور پھر تمہارا وہی حال ہوجائے گا جو کلمہ اسلام کے پڑھنے سے پہلے اس کا تھا۔‘‘[1] یہ بات بھی یقیناً ثابت شدہ ہے کہ ان حضرات کے ہاتھوں سے کچھ ایسے مسلمان بھی قتل ہوگئے تھے جن کا قتل کرنا حلال نہیں تھا۔ مگر اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل نہیں کیا۔ اور نہ ہی مقتول کو ضمانت میں قصاص یا دیت ملی ؛ نہ ہی اس قتل کا کفارہ دیا گیا۔اس لیے کہ قاتل متأول تھا۔یہ اکثر علماء کا قول ہے جیسے امام شافعی؛ امام أحمد رحمہما اللہ اور دیگر حضرات اور کچھ حضرات یہ بھی کہتے ہیں : بلکہ یہ لوگ مسلمان تھے؛ اور انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ تو ان کے حق میں
Flag Counter